Tuesday 26 July 2016

فریقین کی جنگی تیاریاں

جب یہ چاروں لشکر حدودِ شام میں پہنچے اورہر قل کو اس کی اطلاع ملی کہ عربوں نے چار حصوں میں منقسم ہوکر چار مقامات پر حملہ آوری کا قصد کیا ہے تو اس نے بھی اپنے چار سپہ سالاروں کو چار عظیم الشان لشکر دے کر الگ الگ روانہ کیا ،عمرو بن العاصؓ کے مقابلہ کے واسطے اُس نے اپنے حقیقی بھائی تذارق کو نوئے ہزار فوج دے کر فلسطین کی طرف روانہ کیا،جرجہ بن نوذر کوچالیس ہزار فوج دے کر یزید بنؓ ابی سفیان کے مقابل دمشق کی سمت بھیجا،راقص نامی سردار کو پچاس ہزار فوج کے ساتھ شرجیل ؓ بن حسنہ کے مقابلہ پر اُردن کی جانب اور رفیقاء بن نسطورس کو ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبیدہؓ بن الجراح کے مقابلہ کو حمص کی طرف روانہ کیا، ہر قل نے اپنے چاروں سرداروں کے ماتحت کل دو لاکھ چالیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کی ؛حالانکہ مسلمانوں کے چاروں لشکروں کا مجموعہ تیس ہزار کے قریب تھا، اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہر قل نے کیسی زبردست تیاریاں مسلمانوں کے استیصال کی پہلے سے کر رکھی تھیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ خود ہر قل اپنی ذات سے اس بات کا خواہش مند نہ تھا کہ ضرور مسلمانوں سے لڑے وہ تو لڑائی کو ٹالنا اورجہاں تک ممکن ہو مسلمانوں سے بے تعلق رہنا چاہتا تھا؛ لیکن اُس کے تمام درباری تمام امراء، تمام سرداران فوج اورتمام صوبیدار ہم تن آمادہ و مستعد تھے کہ ملک عرب پر حملہ کیا جائے، اس مطلب کو ان الفاظ میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ ہر قل تو لڑائی پر آمادہ نہ تھا مگر رومی گورنمنٹ پورے طور پر آمادہ ومستعد تھی،لہذا ہرقل کو رومی گورنمنٹ کا شہنشاہ ہونے کی حیثیت سے ہر ایک اہتمام ایک ہوشیار وتجربہ کار مہتمم کی طرح کرنا پڑتا تھا۔
مسلمان سردار اگرچہ ایک دوسرے سے جدا سفر کررہے تھے لیکن حکم صدیقی کے موافق ایک دوسرے کے حالات سے باخبر اورآپس میں سلسلہ پیام رسانی کو قائم رکھے ہوئے تھے،جب حدود شام میں داخل ہونے کے بعد اُن کو معلوم ہوا کہ ہر ایک لشکر کے مقابلہ پر اس سے آٹھ گنی رومی فوج جو ہرطرح کیل کانٹے سے درست ہے آرہی ہے تو ایک طرف صدیق اکبرؓ کو اطلاع دی،دوسری طرف انہوں نے مناسب سمجھا کہ ہم کو ایک جگہ متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہئے، اتفاق کی بات کہ ادھر چاروں سردار اپنی اپنی فوجوں کو لئے ہوئے ایک جگہ یرموک میں جمع ہوئے،اُدھر صدیق اکبرؓ نے رومی لشکر کی کثرت اورتیاریوں کا حال سُن کر ایک طرف توچاروں سرداروں کے نام ایک جگہ جمع ہوکر مقابلہ کرنے کا حکم بھیجا،دوسری طرف حضرت خالد بن ولیدؓ کو لکھا کہ تم صوبہ حیرہ میں اپنی جگہ مثنی بن حارثہؓ کو وہاں کا ذمہ دار افسر بناکر نصف فوج مثنیٰ کے پاس چھوڑ کر اورنصف فوج خود لے کر شام کی طرف چلے جاؤ اوروہاں کی تمام افواج اسلام کا اہتمام بہ حیثیت سپہ سالار اعظم اپنے ہاتھ میں لے لو،صدیق اکبرؓ دیکھ چکے تھے کہ خالد بن ولیدؓ نے ایرانی فوج کو کس طرح پیہم شکستیں دے کر ایک بڑا علاقہ سلطنت ایران سے چھین لیا تھا،اُن کی نظر میں خالدؓ سے بہتر کوئی شخص نہ تھا جو اس خطرناک حالت میں رومیوں کا مقابلہ کامیابی سے کرسکے،یہ وہ بھی جانتے تھے کہ خالدؓ کا سب سے بڑا اورسب سے پہلا کارنامہ جنگِ موتہ تھا کہ انہوں نے اسلامی لشکر کی بگڑی ہوئی حالت کو سدھار لیا تھا جس کے صلہ میں بارگاہ ایزدی سے اُن کو سیف اللہ کا خطاب ملا تھا لہذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ چاروں نہایت زبردست اورقبائل سپہ سالاروں کے پاس سیف اللہ کو بھیجنا اوراُن چاروں پر اُن کو سردار بنادینا ضرور مفید ہوگا ؛چنانچہ خالد بن ولیدؓ نے دس ہزار فوج مثنیٰ بن حارثہؓ کے پاس چھوڑی اوردس ہزار فوج لے کر شام روانہ ہوئے۔
اُدھر ہر قل نے جب یہ دیکھا کہ چاروں اسلامی لشکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں تو اُس نے بھی اپنے چاروں سرداروں کو حکم دیا کہ ایک جگہ جمع ہوکر مقابلہ کرو، چاروں رومی لشکر جمع ہوکر چشمہ یرموک کے دوسری جانب ایک ایسے بیضوی میدان میں خیمہ زن ہوئے جو پشت پر جانب پہاڑ اورسامنے کی جانب پانی سے محصور تھا، اس دو لاکھ چالیس ہزار رومی لشکر کا سپہ سالارِ اعظم ہرقل کا بھائی تذارق تھا،ہرقل نے اس کو لکھا کہ میں ایک زبردست لشکر تمہاری کمک کے لئے روانہ کررہا ہوں؛چنانچہ ہامان نامی سردار کو یرموک کی طرف روانہ کیا، اسلامی لشکر جو چشمہ یرموک کے اُس طرف میدان میں پڑا ہوا تھا خود رومیوں پر اپنی قلت کے سبب حملہ نہ کرسکتا تھا،اُدھر رومی جو ایک قدرتی حصار کے اندر محفوظ تھے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہونے میں پس و پیش کررہے تھے۔
یرموک میں جب دونوں طرف کے لشکر جمع ہوئے ہیں تو صفر کا مہینہ تھا،انہیں ایام میں یادو چار روز بعد حضرت خالد بن ولیدؓ عراق سے اپنا دس ہزار لشکر لے کر یرموک کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو کئی جگہ دشمن قبائل اور دشمن رئیسوں کی فوجوں نے روکا ٹوکا، ہر جگہ خالدؓ لڑتے دشمنوں کو ماربھگاتے اورسامنے سے ہٹاتے ہوئے ماہِ ربیع الاول ۱۳ھ میں یرموک پہنچ گئے،یرموک میں ہر قل کی طرف سے کئی سردار اوربطریق فوجی امداد کے ساتھ رومی لشکر میں آ آ کر شریک ہوچکے تھے،حضرت خالدؓ کے آنے سے پہلے اگرچہ معمولی چھیڑ چھاڑ دونوں لشکروں میں ہوجاتی تھی مگر کوئی اہم قابل تذکرہ معرکہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔