Tuesday 26 July 2016

عہدِ صدیقی میں تیار کردہ نسخے کی خصوصیات

دوسرے صحابہٴ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
(۱)اس نسخہ میں آیاتِ قرآنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔(فتح الباری ۹/۲۲)
(۲)اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو۔
(۳)اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تلاش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند کیا گیا۔
(۴)یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا۔(مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷)
( ۵)اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص۱۸۶)
( ۶)اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا، (تدوین قرآن ص۴۰)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہٗ وغیرہ نے قرآن کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے (فتح الباری:۹/۱۵، الاتقان:۱/۱۲۸) اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی اپنی انفرادی کوشش تھی، ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہٗ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے، اس کے علاوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ"قرآن عظیم" کا تیار کروایا اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے قرآن کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا۔
(فتح الباری:۹/۱۵)
قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام الموٴمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری۲/۷۴۶) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔
(صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:۲/۷۴۶، رقم:۴۹۸۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔