Saturday 18 June 2016

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور عرب کے حالات


عرب میں کوئی خبر اتنی تیزی سے نہیں پھیلی جتنی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطلاع۔ جونہی اس حادثے کی شہرت ہوئی عربوں میں افراتفری پھیل گئی ۔ بعض قبائل نے یہ سوچ کر حضور کے جانے کے بعد اسلام کی ضرورت نہیں رہی بعثت نبوی سے قبل کی بدویانہ و غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کی تیاریاں شروع کر دیں ، یہ وہ لوگ تھے جن کو اسلام قبول کیے زیادہ دن نہ گزرے تھے یا جن لوگوں کے دلوں نے اسلامی تعلیمات کا اثر قبول نہ کیا تھا انہوں نے کھلم کھلا ارتداد اختیار کیا .
عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدمدینہ ،مکہ وطائف کے سوا تمام ملک عرب ایسا مرتد ہوگیا کہ لوگ توحید کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہوگئے اور خدا کی جگہ بتوں کی پوجا کرنے لگے تھے؛حالانکہ یہ سمجھنا سراسر غلط اورخلافِ واقعہ ہے ،بات یہ تھی کہ کذابین یعنی جھوٹے مدعیانِ نبوت بھی نمازوں وغیرہ عبادات کے منکر نہ تھے اور ارتدادکفر وشرک کے لئے نہ تھا ؛بلکہ بعض ارکان اسلام بالخصوص زکوٰۃ سے لوگوں نے انکار کیا، اس ارتداد کا سبب قبائل عرب کی قدیمی مطلق العنانی اور آزاد منشی تھی، اسلام نے لوگوں پر زکوٰۃ فرض کی تھی،یہ ایک ٹیکس تھا جو علیٰ قدرِ مال و دولت صاحب نصاب لوگوں کو ادا کرنا پڑتا تھا،اس ٹیکس یا خراج کو آزادی کے خوگر لوگ اپنے لئے ایک بارِ گراں محسوس کرتے تھے، جو ابھی اچھی طرح ذائقہ اسلام کی چاشنی چش نہ ہوئے تھے ،انہوں نے اسلامی خراج کی ادائیگی سے انکار کیا،باقی مذہب اسلام سے ان کو انکار نہ تھا،زکوٰۃ کا انکار چونکہ قبائل کے مزاج اورمادی خواہشات وجذبات کے مناسب حال تھا،لہذا اس انکار میں ایک سرے سے دوسرے تک تمام ملک شریک ہوگیا، یہ چونکہ ایک سرکشی تھی لہذا نو مسلم سرکشوں کو مسیلمۂ و طلیحہ وغیرہ کذابین نے اپنے طرف جذب کرنے اورمالی عبادات کے علاوہ جسمانی عبادات میں بھی تخفیف کرکے اپنی اپنی نبوت منوانے کا موقع پایا۔ شرک اوربت پرستی کا مسئلہ بحرحال مطلق زیر بحث نہ تھا مگر دین اسلام نے نوع انسان میں جو شیرازہ بندی اور نظام قائم کرنا چاہا تھا، وہ نظام بظاہر درہم برہم ہوا چاہتا تھا، اس عظیم الشان خطرہ کا علاج مشرکین وکفار کی معرکہ آرائیوں سے زیادہ سخت اور دشوار تھا؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے مسلمانوں کی حالت اس بکری کی سی ہو گئی جو جاڑے کی سرد وار بارش والی رات کو صحرائے لق و دق میں بغیر چرواہے کے رہ جانے والے اور اسے سر چھپانے کے لے کوئی جگہ نہ مل سکے۔
قضیہ خلافت کی طرح یہ بھی حضرت ابوبکر کے لیے ایک سخت امتحان تھا ۔ اس موقع پر اللہ کی مدد شامل حال نہ ہو تی او ر ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکمت عملی آڑے نہ آتی تو یہ قضیہ کسی صورت میں دبائے نہ دبتا اور مسلمانوں کو بھی اتفاق و اتحاد نصیب نہ ہوتا۔
طائف کے قبیلے ثقیف نے ارتداد اختیار کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ جب وہاں کے عامل عثمان بن ابو العاص کو معلوم ہواتو انہوںنے قبیلے والوں کو اکٹھا کرنے کا کہا:
’اے ابنا ثقیف تم لوگ سب سے پہلے اسلام لائے تھے اب سب سے پہلے ارتداد اخیتار کرنے والے مت بنو‘‘۔
ثقیف کو وہ سلوک یاد تھا جو حنین کی جنگ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کیا تھا۔ پھر انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے اور اہ مکہ کے درمیان قرابت ہے اس لیے وہ عثمان بن ابو العاص کے سمجھانے بجھانے پر اپنے ارادے سے باز آ گئے اور بدستور اسلام پر قائم رہے۔
جس طرح مکہ مدینہ اور طائف کے درمیان بسنے والاے قبائل اسلا م پر قائم رہے اسی طرح مزینہ غفار جہینہ ‘ بلی ‘ اشجمع‘ اسلم اور خزاعہ نے بھی اسلا م کوترک نہ کیا۔ لیکن ان قبائل کے سوا سارے عرب میں اضطراب پیدا ہو گیا۔ لوگوں کے عقائد میں فرق آ گیا۔ ایک گروہ اگر وہ ایسا تھا کہ جو گو اسلام پر تو قائم تھا لیکن مدینہ کی حکومت اور غلبے کو قبو ل کرنے کے لیے تیار نہ تھا ۔
یہ لوگ ادائے زکوۃ کو جزیہ سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک تو زکوۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا کیونکہ آپ نبی تھے آپ ؐ پر وحی آتی تھی اور جو کچھ آ پ ان سے طلب کرتے تھے وہ آپ کا حق تھا لیکن اب کہ آپ اللہ نے جوار رحمت میں بلا لیا ہے اہل مدینہ ان سے کسی بات میں بڑھے ہوئے نہیں اور انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح ان سے ادائے زکوۃ کا مطالبہ کریں۔
جن قبائل نے ادائے زکوۃ سے انکار کیاتھا وہ مدینہ کے قریبی قبائل عبس اور ذیبان اورا ن سے ملحقہ قبائل بنو کنانہ غطفان اور فزارہ تھے لیکن جو قبائل مدینہ سے خاصے فاصلے پر واقع تھے وہ ارتداد کی رو میں بہہ گئے تھے اور اکثر نے حسب ذیل مدعیان نبوت کا ذبہ کی پیروی اختیار کر لی تھی۔
طلیحہ جس نے بنی اسد میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔
سجاح جس نے بنی تمیم میں نبوت کا دعویٰ یا تھا۔
مسلیمہ جس نے یمامہ میں علم بغاوت بلند کیا تھا۔
ذوالتاج لقیط بن مالک جوعمان میں شورش برپا کرنے کا ذمہ دار تھا۔
ان کے علاوہ یمن میں اسود عنسی نے اپنے حامیوں کی ایک بھاری تعداد جمع کر ی تھی۔ یہ لوگ اس کے قتل ہونے تک لڑتے رہے اور بعد یں بھی جب تک جنگ ہائے ارتداد کا مکمل خاتمہ نہ ہ گیا وہ بدستو ر فتنہ و فساد میں مصروف رہے۔
ارتداد کی کچھ دیگر وجوہات:
اکثیر قبائل کا اسلام سے ارتداد اختیار کر لینا صرف اس وجہ سے تھا کہ یہ قباء مدینہ سے خاصے فاصلے پر واقع تھے ،فتح مکہ کے بعد یہ قبائل عرب بھی اسلام کی طرف متوجہ ہوئے اور عرب کے طول و عرض سے وفود مدینہ آ کر قبول اسلا م کا اعلان کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے عمال کو دین کا علم سکھانے اور صدقات وغیرہ وصو ل کرنے کے لیے ان علاقوں میں بھیجنا شروع کیا۔یہ طبعی امر تھا کہ ان قبائل کے دلوں میں مکہ اور مدینہ اور قریبی علاقوں کے مسلمانوں کی طرح دین اسلام کی حقانیت راسخ نہ ہوئی تھی۔ اسلام کو پوری طرح پاؤں جمانے میں بیس سال صرف ہوئے۔ مسلمانوں کو اپنی ہستی برقرار رکھنے کے لیے سخت جدوجہد سے کام لینا، سالہا سال تک مخالفین کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا اور متواتر دشمن سے لڑائیوں میں مصروف رہنا پڑا تھا۔ اس کے بعد مکہ، طائف، مدینہ اور قریبی قبائل کے لوگوں کے دلوں میں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے بکثرت ملنے جلنے کا موقع ملا' اسلامی تعلیمات راسخ ہو گئیں۔ لیکن ان لوگوں پر اسلامی تعلیمات کا کوئی اثر نہ ہو سکا جو اسلامی مراکز سے دور تھے اور جنہوں نے اسلام کی خاطر مسلمانوں کی جدوجہد کو نہ آنکھوں سے دیکھا تھا اور نہ ان کی قربانیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد انہوں نے اس دینی احکام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی شروع کر دی جو ان کے خیال میں زبردستی ان پر مسلط کیے گئے تھے۔

جغرافیائی عوامل کے علاوہ اجنبی عوامل بھی ان قبائل کے خلاف اسلام اٹھنے میں کم اثر انگیز نہ تھے مکہ، مدینہ کے ارد گرد کے علاقے تو ایرانیوں اور رومیوں کی دست برد سے محفوظ تھے لیکن عرب کا شمالی حصہ جو شام سے متصل تھا اور جنوبی علاقہ جو ایران سے ملا ہوا تھا ان دونوں عظیم الشان سلطنتوں کے زیر اثر تھا۔ ان دونوں سلطنتوں کو ان علاقوں میں بہت اثر و رسوخ حاصل تھا اور یہاں کے سردار بھی براہ راست رومیوں اور ایرانیوں کے تابع تھے۔ ان امور کی موجودگی میں کچھ تعجب نہیں کہ ارتداد کی رو میں مندرجہ ذیل عوامل کام کر رہے ہوں!
1۔ شخصی آزادی اور خود مختاری کا جذبہ
2۔ شمال میں مسیحی اور جنوب و مشرق میں مجوسی سلطنتوں سے قرب کے باعث مسیحیت اورمجوسیت کا دلوں پر اثر
3۔ آبائی عقیدے (بت پرستی) کی کشش۔
جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات مشہور ہوئی ان عوامل نے اثر دکھانا شروع کر دیا اور جا بجا ارتداد کا فتنہ برپا ہونے لگا۔ بعض علاقوں میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ان عوامل نے اثر کرنا شروع کر دیا تھا جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں بیان ہو گی۔ متعدد ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہو گئے جنہوں نے اپنے قبیلوں کو بغاوت کرنے پر اکسانا اور اپنے جھنڈے تلے جمع کرنا شروع کیا اور اس طرح عرب کے طول و عرض میں ایک زبردست فتنہ پھیل گیا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔