Saturday 18 June 2016

فتنہَ داعیانِ نبوت اور اس کی کامیابی کے چند اسباب


یہ فتنہ مختلف علاقوں کے اندر مختلف صورتوں میں پھیلاا ور ہر جگہ اس کے اسباب و عوامل بھی علیحدہ علیحدہ تھے۔ ان تمام باتوں کا ذکر ہم آگے چل کر وضاحت سے کریں گے لیکن یہاں بعض ضروری باتوں کا بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فتنہ و فساد کے اس طوفان پر نظر ڈالنے سے بعض اہم امور کا علم ہوتا ہے جن پر غور و فکر سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو بھی فتنہ اٹھا بڑی تیزی سے اٹھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسود عنسی نے تھوڑے ہی عرصے میں ملک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور اس کی حکومت جنوب میں حضر موت سے مکہ و طائف تک پھیل گئی۔ مسلیمہ اور طلیحہ نے بھی غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ مزید برآں جن علاقوں میں ارتداد کی وباء پھیلی اور جہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کی اطاعت کا جوا کندھوں پر اٹھانے سے انکار کر دیا وہ علاقے تہذیب تمدن اور دولت و ثروت کے لحاظ سے تمام قبائل عرب سے بڑھے ہوئے تھے اور ان کی حدود مملکت ایران سے بہت قریب تھیں۔
یمامہ اور خلیج فارس سے ملحقہ قبائل میں بھی حالات پرسکون نہ تھے بلکہ وہاں بھی اندر ہی اندر بغاوت کی آگ سلگ رہی تھی۔ مسلمان اس صورتحال سے خاصے پریشان تھے۔ کبھی تو وہ شورش کے بانیوں سے صلح کرنے پر آمادہ نظر آتے تھے اور کبھی طاقت کے ذریعے سے ان کا سر کچلنے کی تدابیر میں مصروف ہو جاتے تھے تاکہ ان کا غلبہ و اقتدار بدستور قائم رہے اور اسے کوئی ضعف نہ پہنچے۔ یہ علاقے ایک طرف تو مکہ اور مدینہ سے دور تھے اور اسلام کی تعلیم ان لوگوں کے دلوں میں راسخ نہ ہوئی تھی، دوسری طرف یہ فارس سے متصل تھے اور ایرانیوں سے ان لوگوں کا تجارتی رابطہ قائم تھا، اس لیے تعجب نہیں کہ ان بغاوتوں اور شورشوں میں ایرانیوں کا بھی خفیہ ہاتھ ہو۔
یہی وجہ تھی کہ ابوبکرؓ نے اس فتنے کو فرو کرنے میں پوری طاقت صرف کر دی اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک ان علاقوں میں اسلامی سلطنت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر کے امن و امان بحال نہ کر دیا۔
اسود عنسی کی بغاوت اور مسلیمہ و طلیحہ کی تیاریوں سے اس امر کا بھی علم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دینی اضطراب اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اگر کوئی شخص مذہب کا نام لے کر ذاتی مفاد کے لیے کوئی تحریک چلانا چاہتا تو بڑی آسانی سے کامیاب ہو سکتا تھا۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ لوگوں میں کسی خاص مذہب کے متعلق تعصب پایا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس کوئی بھی عقیدہ ان لوگوں کے دلوں میں راسخ نہ تھا۔ نصرانیت، یہودیت، مجوسیت، بت پرستی، غرض ہر مذہب و ملت کے پرستار اور مددگار یہاں موجود تھے لیکن سب کے سب باہم لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ہر مذہب کے پرستاروں کا دعویٰ تھا کہ انہیں کا مذہب مبنی برحق ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا راستہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ چونکہ ہر مذہب سچائی کا مدعی تھا۔ اس لیے عام انسان کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ وہ کس مذہب کو قبول کرے اور کسے چھوڑے۔ اندریں حالات مدعیان نبوت کے لیے یہ بات آسان ہو گئی کہ وہ اپنے اپنے قبیلے میں عصبیت کے جراثیم پھیلا کر اور مختلف شعبدوں کو اپنی صداقت کے ثبو ت میں پیش کر کے انہیں اپنی طرف مائل کر لیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان مدعیان نبوت نے کثیر التعداد لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے اسلامی حکومت کے خلاف بظاہر کامیابی حاصل کر لی۔

ان مدعیان نبوت کی عارضی کامیابی کا راز ان کے دعوے اور لوگوں کے ان پر ایمان لانے میں مضمر نہ تھا۔ بلکہ اس میں بعض اور عوامل بھی کام کر رہے تھے۔ چنانچہ اسود عنسی کی کامیابی کی بڑی وجہ بے پناہ نفرت تھی جو اہل یمن کو اہل فارس اور اہل حجاز سے تھی۔ اسود نے یمنیوں کا یہ جذبہ نفرت ابھار کر انہیں آسانی سے حجازیوں کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔
مسیلمہ اور طلیحہ نے بھی اسود عنسی کے نقش قدم پر چل کر اپنی اپنی قوم میں عصبیت کے جذبات کو بھڑکایا اور اس طرح لوگوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر لیا۔ اس عصبیت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگ کے دواران ایک صحابی نے مخالف فوج کے ایک جنگجو سے کہا کہ تم ان کذابوں کی پیروی کیوں کررہے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے حضورﷺ سچے نبی تھے اور جنکی تم پیروی کررہے ہو یہ کذاب ہیں ، اس نے جواب دیا کہ بنی اسد کا جھوٹا بھی حجاز کے سچے نبی سے بہتر ہے۔!!
اگر ان علاقوں میں اسلام کی بنیاد مضبوط ہوتی اور اس کے اصول لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوتے تو ان مدعیان نبوت کو کبھی حکومت کے مقابلے میں کھڑے ہونے اور کثیر التعداد لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لینے کی توفیق نہ ملتی۔ کیونکہ جو عقیدہ دلوں پر غلبہ حاصل کر چکا ہو اسے شاذ و نادر ہی کوئی طاقت مغلوب کر سکتی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا علاقوں کے لوگوں کا ایمان چونکہ محض رسمی تھا اور وہ اسلام کی حقیقی و ماہیت سے قطعاً ناواقف تھے اس لیے جونہی قومیت کے نام سے تحریکیں شروع ہوئیں اور عصبیت اک واسطہ دلا کر انہیں ابھارا گیا وہ اسلام کو خیر باد کہہ کر اسود اور مسیلمہ جیسے لوگوں کے پیچھے چل کھڑے ہوئے۔
ہمارے نظریے کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اس عظیم الشان شورش کے وقت مکہ اور طائف والے بدستور اسلام پر قائم رہے۔ یہ درست ہے کہ یمن میں اسلام کا چرچا وہاں کے حاکم بازان کے قبول اسلام کے وقت سے شروع ہو گیا تھا اور یہ واقعہ فتح مکہ و طائف سے پہلے کا ہے۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ سیزدہ سالہ قیام کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی سخت مخالفت کے باوجود آپ کی تعلیمات نے اہل مکہ کے دلوں پر اسلام کے متعلق ایسا مخفی لیکن گہرا اثر چھوڑا تھا جو بازان کے قبول اسلام اور معاذ بن جبل کی تعلیم و تربیت کے باوجود اہل یمن کے دلوں پر نہ ہو سکا۔
تیسری بات جس کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یمن کی بغاوت ہی نے بنی یمامہ اور بنی اسد کو اسلامی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات دلائی طلیحہ اور مسیلمہ دونوں مسلمانوں کی بے پناہ قوت سے خوف کھاتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں کبھی جیت نہیں سکتے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ھکومت سے بغاوت اور سرکشی کی جرات نہ کی۔ لیکن جب اسود عنسی میدان مقابلہ میں آ گیا اور اسے ابتداء کامیابی بھی ہوئی تو ان دونوں کو بھی علم بغاوت بلند کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ان کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے۔ اگر اسود عنسی مسلمانوں کے خلاف کھڑا نہ ہوتا اور یمن میں فتنہ و فساد اور بغاوت کی آگ نہ بھڑکتی تو ان دونوں کو کبھی مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہ ہوتی۔
جب ایک بار فتنہ برپا ہو گیا تو اسود عنسی کی موت کے باوجود دب نہ سکا۔ بلکہ اس میں زیادتی ہی ہوتی چلی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے شدت اختیار کر لی اور سارا عرب اس کی لپیٹ میں آ گیا۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربوں کی اس بغاوت اور فتنہ ارتداد میں اجنبی ہاتھ ضرور تھا۔ ایرانیوں اور رومیوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اسلام کی دعوت پہنچی اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے اسلام کے اثر و نفوذ کو بڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو اپنی خیرت اسی میں سمجھی کہ قبل اس کے کہ اسلام کا عظیم الشان سیلاب ان کی طرف رخ کرے خود عربوں میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر دئیے جائیں اور انہیں اس نئے دین کے خلاف بھڑکا کر خود عربوں کو اپنے ہم قوم مسلمانوں سے بھڑا دیا جائے۔
اس فتنے کے بانیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حصول مقصد کے لیے ریشہ دوانیاں شروع کر دی ہیں۔ آپ کی وفات سے مفسدین کے حوصلے اور بڑھ گئے اور انہوں نے پوری قوت سے بغاوت کے شعلے بھڑکا کر مسلمانوں کو انتہائی نازک مرحلے سے دو چار کر دیا۔
ابوبکرؓ نے فتنے کا مقابلہ کس طرح کیا، عربوں کا اتحاد دوبارہ کس طرح قائم کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیادوں کو دوبارہ استوار کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے؟ ان سب باتوں کا جواب آئندہ تحاریر میں آئے گا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔