Saturday 18 June 2016

دورِ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی انفرادیت


عہد رسالت اور خلافت ثانیہ کے اتصال کے باعث حضرت ابوبکرؓ صدیق کا دور ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہد ارشاد و اصلاح کا عہد تھا۔ آپ کے عہد میں شریعت کا نزول ہو رہا تھا اللہ کی طرف سے بندوں کو ہدایت کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل احکام دیے جا رہے تھے۔ اس کے بالمقابل حضرت عمرؓ کا عہد تنظیمی تھا۔ نوزائیدہ اسلامی سلطنت کے انتظام و انصرام کے لیے اصو و قواقد مرتب کیے جا رہے تھے اور مختلف محکموں کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا۔ ابوبکرؓ کا دور جہاں ان دونوں دوروں کی درمیانی کڑی تھا وہاں ان غیر معمولی حالات کی وجہ سے جوآپ کے عہد میں پیش آئے ان دونوں سے بڑی حد تک مختلف بھی تھا۔
اپنے مختصر دور میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جن مشکلات … او رمصائب کا سامنا کرنا پڑا ان کے باعث اسلام کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد معا بعد اس وحدت عربیہ میں انتشار کے آثار نظر آنے لگے جسے آپ نے تئیس برس کی محنت شاقہ کے بعد قائم کیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انتشار کے آثار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اواخر میں ہی نظر آنے لگے تھے۔ مسیلمہ بن حبیب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنے قاصدوں کے ہاتھ آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ مجھے اللہ نے نبوت کے مقام پر سرفراز کیا ہے اور اس لیے عرب کی نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی۔
مسیلمہ کی دیکھا دیکھی اسود عنسی بھی نبی بن بیٹھا اور شعبدے دکھا دکھا کر اہل یمن کو اپنی طرف مائل کرنے لگا۔ طاقت حاصل ہونے پر اس نے جنوب کا رخ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کے بعد وہ نجران کی طرف بڑھا اوروہاں بھی تسلط قائم کر یلا۔ یہ حالات دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجبوراً اپنے عمال کو ان باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہونا پڑا۔ اصل بات یہ تھی کہ عرب گو توحید کے قائل ہو چکے تھے اور بت پرستی بھی انہوں نے ترک کر دی تھی لیکن ان میں سے بیشتر کو اس حقیقت کا علم نہ تھا کہ دینی وحدت اور سیاسی اتحاد میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور اسلام قبول کرنے کا مطلب مدینہ کی حکومت کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اہل عرب آزاد منش انسان تھے اور کسی منظم حکومت کے آگے سر جھکانا اور دل و جان سے اس کی اطاعت کرنا ان کی سرشت کے خلا ف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جو ں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر پھیلی عرب کے اکثر قبائل نے اسلام کے اتداد اور مدینہ کی حکومت سے بغاوت کا اعلان کر دیا۔
بغاوت کا فتنہ جنگل کی آگ کی طرح عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گیا۔ جب یہ خبریں مدینہ پہنچیں تو لوگوں میں سخت گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہو گئی … ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس نازک موقع پر بغاوت ختم کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں بعض لوگوں کی… جن میں حضرت عمربن خطابؓ بھی شامل تھے… یi رائے تھی کہ اس موقع پر مانعین زکوۃ ک نہ چھیڑا جائے۔ اور جب تک وہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے اقراری رہیں انہیں ان کے حال پر قائم رہنے دیا جائے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مانعین زکوۃ کو بھی مرتدین کے زمرے یں شامل کرلیا گیا تو جنگ کی آگ وسیع پیمانے پر پھیل جائے گی۔ جس کا انجا م خدا جانے کیا ہو گا۔ لیکن ابوبکرؓ نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کرم مرتدین کی طرح مانعین زکوۃ سے بھی جنگ کرنے ک امصمم ارادہ کر لیا اورکوئی طاقت اور کوئی دبائو ایسا نہیں تھا کہ انہیں ایسا کرنے سے باز رکھ سکا۔
جنگ ہائے ارتداد کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگو ں کا یہ خیال غلط ہے کہ ان جنگوں میں فریقین کی تعداد چند سو سے متجاوز نہ ہوتی تھی۔ اس کے برعکس بعض لڑائیوں میں دس دس ہزار لوگوں نے حصہ لیااور فریقین کے ہزاروں آدمی ان جنگوں میں کام آئے۔ مزید برآں تاریخ اسلام میں انہیں فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے۔ اگر ابوبکرؓ اہل مدینہ کی اکثریت کی رائے قبول کر کے ان لوگوں سے جنگ نہ کرتے تو فتنہ و فساد میں کمی ہونے سے بجائے اور زیادہ شدت پیدا ہو جاتی اور اسلامی سلطنت کا قیا م کبھی عمل میں نہ لایا جا سکتا۔ اگر خدانخواستہ ان جنگوں میں ابوبکرؓ کی فوجوںکو کامیابی حاصل نہ ہوتی تو معاملہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کر جاتا اور اس کانتیجہ اسلام اور مسلمانوں دونوں کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا۔
یہ تمام حالات دیکھ کر بلاشبہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ابوبکرؓ نے مرتدین سے جنگ کرنے کا فیصلہ کرنے کے اور ان پر کامل تسلط پا کر تاریخ عالم کے دھارے کا رخ موڑ دیا اوراس طرح گویا نئے سرے سے انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔
اگر جنگہائے ارتداد میں ابوبکرؓ کو کامیابی نصیب نہ ہوتی تو ایرانی اوررومی سلطنتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا فائز المرام ہوناتوکجا عرا ق و شام کی طرف پیش قدمی کرنا بھی ناممکن تھا۔ اس وقت نہ ان عظیم الشان سلطنتوں کے کھنڈروں پر اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جا سکتی اور نہ ایرانی و رومی تہذیب و تمدن کے بجائے‘ اسلامی تہذیب و تمدن کے لے راستہ ہموار کیا جا سکتا۔
اگر مرتدین کی جنگیں وقوع میں نہ آتیں اور ان میں سے کثرت سے حفاظ قرآن کا اتلاف جان نہ ہوتا توغالبا ٍ حضرت عمر ؓ ابوبکرؓ کو جمع قرآن کا مشورہ نہ دیتے اوراس طرح قرآن کریم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک جگہ محفوظ کرنے کا جلیل القدر کارنامہ عمل میں نہ آتا۔
اگر جنگہائے ارتداد خدانخواستہ مسلمانوں کی شکست پر منتج ہوتین تو ابوبکرؓ کے لیے مدینہ میں بھی نظام حکومت قائم کرنا مشکل ہو جاتا اور اس نظام کی بنیاد پر حضرت عمرؓ ایک رفیع المنزلت عمارت کبھی تعمیر نہ کر سکتے۔
یہ عظیم الشان واقعات ستائیس ماہ کی قلیل ترین مدت میں انجام پاگئے۔ اس قلیل مدت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے ابوبکرؓ کے عہد کو نظر انداز کرکے اپنی تمام تر توجہ حضرت عمرؓ کے عہد کی جانب منعطف کر دی۔ ان کا خیال ہے کہ گنتی کے چند مہینے کسی طرح بھی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والے عظیم امور کی انجام دہی کے لیے کافی نہیں ہو سکتے لیکن یہ درست نہیں کہ وہ انقلاب جنہوں نے انسانیت کادرجہ بہ درجہ اوج کمال تک پہنچایا بالعموم قلیل وقفوں ہی میں برپا ہوتے رہے اور دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے۔
ابوبکرؓ نے اپنے عہد میں پیداہونے والی بے انتہا مشکلات پر کس طرح قابوپایا اور ان مشکلات کے باوجود ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد کس طرح رکھ دی؟ یہ سوال ہے کہ جو اکثر لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتاہے اور ہمارے لیے اس کاجواب دینا ضروری ہے۔
لاریب ابوبکرؓ کی عدیم النظر کامیابیوں میں ان کے ذاتی اوصاف کو بھی بڑی حد تک دخل ہے۔ لیکن سب سے برا دخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پاک صحبت کا ہے جو تواتر بیس سال تک انہیں حاصل رہی۔ اسی وجہ سے مورخین اس رمز پر متفق ہیں کہ حضرت صدیقؓ کی عظمت کلیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہین منت ہے۔ آپ ہی کے فیض کانتیجہ تھا کہ ان کی رگ رگ میں اسلام کی محبت سرایت کر گئی اور انہوںنے القاء کے ذریعے اس حقیقی روح کو پا لیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت میں پنہاں تھی۔ اسی القا کی روشنی میں انہیں اس حقیقت کا ادراک بھی ہو گیا کہ ایمان ایک ایسی قوت ہے کہ جس پر اس وقت تک کوئی طاقت غالب نہیں آ سکتی۔ جب تک مومن تمام نفسانی خواہشات سے کلیۃ منزہ ہو کر حض تبلیغ و صداقت کی خاطر اپنی زندگی وقف کیے رکھتا ہے
بلاشبہ اس حقیقت کا ادراک مختلف زمانوں میں اور بھی بہت سے لوگوں کو ہوا ہے لیکن عقل محض و دانش اور غور و فکر کے نتیجے میں۔ اس کے بالمقابل ابوبکر ؓکے مصفا اور پاک دل نے بغیر کسی خارجی دبائو کے خو د بخود اس حقیقت کی طرف ان کی رہنمائی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطہرنمونے اور عمل نے اس ادراک کو اس حد تک جلا دی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دل میں کسی شک و شبہ کا راہ پانا ممکن ہی نہ رہا۔
یہی ایمان صادق تھاا کہ جس کی بدولت ابوبکرؓ میں اس قدر بے نظیر جرات اور عدیم المثا ل عزیمت پیدا ہوگئی کہ جب مرتدین سے جنگ کرنے کا سوال پیش ہوا اور تمام صحابہؓ نے انہیں موقع کی نزاکت کے لحاظ سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا تو انہوں نے نہایت سختی سے اسے رد کردیا اور فرمایا کہ میں ضرور مرتدین سے جنگ کروں گا کہ خواہ مجھے اس کے لیے تنہا ہی کیوںنہ نکلنا پڑے ۔
اولا العزمی کا یہ سبق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے ابوبکرؓ کو پڑھایا تھا اور اپنے پاک نمونے کے ذریعے ان کے دل میں یہ بات راسخ کردی تھی کہ حق کے مقابلے میں جھکنے اور کمزوری دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا ابوبکرؓ وہ وقت بھول سکتے ہیں کہ جب شدید مخالفت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکہ و تنہا مکہ کی گلیوں میں خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے ؟ مال و دولت اور عزت و وجاہت کا کوئی لالچ ظلم و ستم‘ بائیکاٹ اور قتل کی کوئی دھمکی آپ کو صراط مستقیم سے بال برابر بھی ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور آپ معجزانہ اولو العزمی و استقامت سے برابر یہ اعلان فرماتے رہے:
’’ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ سور ج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑ ا کر دیں تو بھی میں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے سے باز نہ آئوں گا خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔
کیا ابوبکرؓ کی نظروں سے وہ واقعہ اوجھل ہو سکتا تھا کہ احد کی جنگ میں صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد کی شہادت کے باوجود جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سناکہ کفار قریش پلٹ کر دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ تمام خطرات کو پس پشت ڈالتے اور تمام عواقب کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف جنگ احد میں شریک ہونے والے مسلمانوں کو لیکر (جن میں زخمیوں کی بھی خاصی تعداد شامل تھی) کفارکے تعاقب میں روانہ ہو گئے اورحمراء الاسد پہنچ کر قیام فرمایا۔ مسلمانوںکا یہ استقلال دیکھ کر کفار کے حوصلے پست ہو گئے اور انہوںنے مقابلے پر آئے بغیر مکہ کو کوچ کر جانے ہی میں اپنی خیر سمجھی۔ اس طرح مسلمانو کے دلوں پر زخم بھی بڑی حد تک مندمل ہو گئے جو جنگ احد کی وجہ سے انہیں پہنچے تھے۔
پھر ابوبکرؓ اس واقعے کو کس طرح فراموش کر سکے تھے جب غزوہ حنین کے موقع پر بعض نومسلموں کی بے تدبیری سے اکثر مسلمان کی سواریاں بھاگ کھڑی ہوئیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند صحابہؓ کے ہمراہ انتہائی پامردی سے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور ان کے تیروں کی بے پناہ بوچھاڑ کی مطلق پرواہ نہ کی۔ بالآخر جب حضرت عباسؓ نے بلند آواز سے پکارنا شروع کیا ’’اے گروہ انصار! جنہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوپناہ دی اورہر موقع پر ان کی مدد کی اور اے گروہ مہاجرین جنہوںنے صلح حدیبییہ کے موقع پر موت کی بیعت کی خدا کا رسول زندہ ہے اور تمہیں بلاتا ہے ‘‘تو مسلمان پلٹے اور دوبارہ میدان جنگ میں دشمن کے سامنے صف آرا ہو گئے۔
ابوبکرؓ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ نمونے تھے جو انہوںنے آپ کے سچے اور کامل متبع کی حیثیت سے اختیار کیے۔ اس اولو العزمی ہ کے باعث مٹھی بھر مسلمانوں کو غرب کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے لا تعداد مرتد قبائل کے مقابلے میں زبردست کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے دلوں میں یہ بات میخ فولاد کی طرح گڑ گئی کہ ان کی سرشت میں ناکامی کا خمیر ہی نہیں۔ حق و صداقت کے رستے میں شہادت پانے کا جذبہ اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ ان کی نظروں میں شہادت ہی کامیابی کے حصو ل کا ذریعہ قرار پائی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مسلمان اپنی کامیابی کی طرف سے پورے طور پر مطمئن تھے کیونکہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتح و نصرت کا وعدہ فرما رکھا تھا اور ہر موقع پر ملائکہ کے ذریعے تائید ربانی کا نزول ہوتا تھا لیکن ابوبکرؓ کے عہد میں کوئی ایسی بت نہ تھی۔ وحی کا نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کوکاملاً اپنانے سے ہی مسلمان کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے تھے ۔
ابوبکرؓ نے کامیابی کا یہ گر معلو م کر لیا تھا اوریہی گر اختیار کرنے سے انہوںنے اپنے مختصر عہد خلافت میں وہ عظیم الشان کارنامے انجام دیی جن پر ایک دنیا انگشت بدنداں ہے۔ ایمان کا جو جذبہ آپ کے دل میں موجزن تھا اور دین کی خدمت کی جو روح آپ کے اندر کام کر رہی تھی ا س کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ نہایت قلیل عرصے میں ایسے جلیل القدرامور انجام پا گئے جو عام حالات میں سالہا سال کی ان تھک کوششوں کے باوجود پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔