Saturday 18 June 2016

عہدِ صدیقی کا پہلا معرکہ


ابوبکرؓ کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ ابھی تین روز بھی نہ گزرے تھے کہ منکرین زکوٰۃ نے مدینہ پر چڑھائی کر دی اور تہیہ کر لیا کہ خلیفہ سے اپنی بات منوا کر ہی واپس جائیں گے۔مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے جاسوسوں نے منکرین زکوٰۃ کے ارادوں سے علیؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، ابن مسعود اور دوسرے لوگوں کو مطلع کر دیا۔ انہوں نے ابوبکرؓ کے پاس خبر بھیجی۔ ابوبکرؓ نے انہیں تو ہدایت کی کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر ٹھہر کر شہر کے تمام ناکوں کی حفاظت کریں، اور خود اونٹ پر سوار ہو کر مسجد نبوی میں تشریف لائے اور تمام مسلمانوں کو جو وہاں جمع تھے، ساتھ لے کر ان لوگوں کے مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے جو بے خبری میں مسلمانوں پر شب خون مارنا چاہتے تھے۔
ان قبائل کے وہم میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی ان کے مقابلے میں آئے گا۔ کیونکہ انہیں اپنے وفود کے ذریعے سے اہل مدینہ کی کمزوری کا علم ہو گیا تھا۔ لیکن جب ان کی توقعات کے قطعاً برعکس انہیں حضرت علیؓ وزبیرؓ وطلحہ وابن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدینے سے باہر ہی روکا اورمدینہ میں صدیق اکبرؓ کے پاس خبر بھیجی،ادھر سے بلا توقف کمک روانہ ہوئی ،مسلمانوں نے ذی خشب تک ان کو پسپا کردیا اور وہ ہزیمت پاکر بھاگ نکلے،مگر دوسرے راستے سے دف اورقسم قسم کے باجے بجاتے ہوئے لوٹے جس سے مسلمانوں کے اونٹ ایسے بدکے اور ڈر کر بھاگے کہ مدینہ ہی میں آکر دم لیا۔
عبس، ذبیان اور ان کے مددگار، مسلمانوں کے بھاگ جانے سے بڑے خوش ہوئے اور اسے اپنی فتح مندی اور مسلمانوں کی کمزوری پر محمول کرتے ہوئے مقام ذی القصہ کے خیمہ زن لوگوں کو ان تمام واقعات کی اطلاع دی۔ ذی القصہ والے بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور آپس میں صلاح مشورہ ہونے لگا۔۔۔۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ وہ اس وقت تک واپس نہ جائیں جب تک مسلمانوں کو ناک چنے چبوا کر اپنی پیش کردہ شرائط قبول کرنے پر مجبور نہ کر دیں۔
ادھر ابوبکرؓ اور تمام مسلمانوں نے اس رات پلک تک نہ جھپکائی بلکہ دشمن سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول رہے۔ رات کے آخری تہائی حصے میں وہ مسلمانوں کو لے کر دوبارہ انکی جانب روانہ ہوئے۔ پہلے کی طرح اب بھی انہوں نے اس امر کی کامل احتیاط کی کہ دشمن کو کانوں کان مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہونے پائے۔ صبح صادق کا ظہور ہوا تو مسلمان اور ان کے دشمن قبائل ایک ہی میدان میں تھے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ مسلمان لڑائی کے لیے پوری طرح تیار تھے اور دشمن بڑے اطمینان اور آرام سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ مسلمانوں کے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا تھا۔ وہ لوگ اس اچانک حملے سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور اسی نیم بیداری کی حالت میں لڑنا شروع کر دیا ، اور ابھی سورج نے اپنا چہرہ افق عالم پر ظاہر ہی کیا تھا کہ دشمن کے لشکر نے نہایت بے ترتیبی کی حالت میں بھاگنا شروع کر دیا۔ ابوبکرؓ نے ذی القصہ تک ان کا تعاقب کیا۔ آخر جب یہ دیکھ لیا کہ وہ دوبارہ واپس آنے کی جرأت نہ کریں گے تو ابوبکرؓ اس جگہ واپس آ گئے جہاں پر تھوڑی دیر قبل میدان کار زار گرم تھا اورنعمان بن مقرن، سالار میمنہ کو تھوڑی سی جمعیت کے ہمراہ اس جگہ چھوڑ کر خود مدینہ تشریف لے آئے۔
ابوبکرؓ نے عزم و ثبات اور ایمان و ایقان کا جو مظاہرہ کیا وہ چنداں قابل تعجب نہیں کیونکہ انہوں نے آغاز اسلام ہی سے اپنا مقصد اولین یہ قرار دے رکھا تھا کہ وہ ہر کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کریں گے اور ان کی ساری زندگی اس امر کی شاہد ہے کہ انہوں نے ہر موقع پر اپنے اس عہد کو پوری طرح نباہا اور بڑی سے بڑی روک بھی انہیں ان کے بلند مقصد سے علیحدہ نہ کر سکی۔ اس صورت میں یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ دشمنوں سے ایسے معاملے کے متعلق سمجھوتا کر لیتے جو سرا سر احکام الٰہی کے خلاف تھا۔ ابوبکرؓ کی نظروں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک ورق کھلا ہوا موجود تھا۔ جب کبھی کسی جانب سے منشائے الٰہی اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی کام کرنے کے لیے ان پر زور دیا جاتا تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فقرہ یاد آ جاتا جو ابو طالب کی درخواست پر آپ نے کہا تھا:
واللہ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کھڑا کریں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں جو مجھے اللہ کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے تو بھی میں اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ یا تو میں دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا بنا لوں یا اپنی کوشش میں ہلاک ہو جاؤں۔
ابوبکرؓ نے بھی بالکل اسی قسم کا جواب اپنے ساتھیوں کو اس وقت دیا تھا۔ جب انہوں نے اسامہؓ کی روانگی منسوخ کرنے پر زور دیا تھا اور یہی موقف انہوں نے اس وقت اختیار کیا جب لوگوں نے انہیں منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی وہ ایمان صادق تھا جس کے مقابلے میں انہوں نے کسی چیز کی، حتیٰ کہ موت کی بھی، پروا نہ کی اور یہی ایمان صادق تھا، جس کے مقابلے میں دنیا کی تمام آسائشیں ان کی نظروں میں ہیچ تھیں، اس نازک وقت میں اسلام کو تباہی و بربادی سے بچانے میں بھی سب سے بڑا ممد و معاون ثابت ہوا۔

سوال پیدا ہوتا ہے آخر کیا حرج تھا اگر ابوبکرؓ منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کرنے کے بارے میں عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ کا مشورہ قبول کر لیتے، اس کا جواب بہت سہل ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ عرب کے اکثر قبائل نے بہت تھوڑا عرصہ قبل بت پرستی سے نجات حاصل کی تھی اور جاہلیت کا دور ختم ہوئے نہایت قلیل عرصہ گزرا تھا۔ اگر ابوبکرؓ فرائض دینی کو ترک کر دینے کے متعلق قبائل عرب کا کوئی مطالبہ تسلیم کر کے ان سے سمجھوتا کر لیتے تو طلیحہ، مسلیمہ اور دوسرے خود ساختہ نبی فوراً یہ پروپیگنڈا شروع کر دیتے کہ فرائض دینی کی بجا آوری کے متعلق اس سمجھوتے سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیغام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ (نعوذ باللہ) اللہ کی طرف سے نہ تھا بلکہ آپ کا خود ساختہ تھا ورنہ ابوبکرؓ اس کے متعلق سمجھوتا کیوں کرتے۔!!
قبائل عرب پر اس پروپیگنڈے کا زبردست اثر ہوتا اور اس کے نتیجے میں وہ لوگ مدعیان نبوت سے مل جاتے جو ابھی ان پر ایمان نہ لائے تھے اور ان کی اطاعت قبول نہ کی تھی۔ ذی القصہ میں شرمناک شکست کا انتقام لینے کے لیے بنی ذبیان اور بنی عبس کے مشرکین نے ان تمام مسلمانوں کو قتل کر ڈالا جو ان کی دسترس میں تھے، لیکن اس کا اثر الٹا پڑا اور قبائل کے وہ لوگ جو بدستور اسلام پر قائم تھے اپنے عقیدے میں اور پکے ہو گئے اور انہوں نے بے پس و پیش ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر زکوٰۃ پیش کرنی شروع کر دی کیونکہ انہوں نے تمام حالات و واقعات کا مشاہدہ کر کے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ ابوبکرؓ اپنی قوت ایمانی کی بدولت ان مرتدین پر لامحالہ غالب آ جائیں گے، دین حق کا بول بالا ہو گا اور وہ بزدلانہ انتقام جو ہزیمت خوردہ قبائل نے کمزور و بے کس مسلمانوں سے لیا ہے ان کی ہزیمت کے داغ کو نہ مٹا سکے گا اور ان قبائل کو اس کی بہت مہنگی قیمت دینی پڑے گی۔
کسی شک کی گنجائش بھی کہاں تھی؟ صدیق اکبرؓ نے عہد کر لیا تھا کہان قبائل سے غریب و بے کس مسلمانوں کے قتل کا انتقام لیا جائے گا اور کسی بھی مشرک کو، جس نے مسلمانوں کے قتل میں حصہ لیا ہے، زندہ نہ چھوڑا جائے گا، اس کام کے لیے صرف لشکر اسامہ کی واپسی کی دیر تھی۔
ذی القصہ میں مسلمانوں کی فتح پر قبائل کے جو لوگ بدستور اسلام پر قائم تھے جوق در جوق زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے مدینہ آنے شروع ہوئے۔ سب سے پہلے جو لوگ آئے وہ بنی تمیم کے رئیس صفوان اور زبرقان اور بنی طی کے سردار عدی بن حاتم طائی تھے۔ اہل مدینہ نے بڑی گرمجوشی سے ان لوگوں کا خیر مقدم کیا۔ لیکن اندر ہی اندر ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کہیں ان لوگوں کا آنا ہمارے لیے مصیبت کا باعث نہ ہو۔ مگر ابوبکرؓ ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ نہیں یہ لوگ تمہارے لیے مصیبت کا پیغام لے کر نہیں بلکہ خوش خبری لے کر آئے ہیں۔ یہ تمہارے دشمن نہیں مددگار ہیں۔
اس وقت مسلمانوں کے حوصلے بلند رکھنا بے حد ضروری تھا کیونکہ ہر جانب خطرات کے بادل منڈلاتے دیکھ کر مسلمانوں کو طبعاً مضبوط سہاروں کی ضرورت تھی۔ عبداللہ بن مسعود اس وقت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے تھے اگر اللہ ابوبکرؓ کے ذریعے سے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہماری ہلاکت یقینی تھی۔ ہم سب مسلمانوں کا بالاتفاق یہ خیال تھا کہ ہم زکوٰۃ کے اونٹوں کی خاطر دوسروں سے جنگ نہ کریں گے اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جائیں گے یہاں تک کہ ہمیں کاملاً غلبہ حاصل ہو جائے۔ لیکن ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰۃ سے لڑنے کا عزم کر لیا۔ انہوں نے منکرین کے سامنے صرف دو باتیں پیش، کیں، تیسری نہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔