Thursday 10 December 2015

حیاتِ مبارکہ کا آخری دن


حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے۔ اور ابو بکرؓ امامت فرمارہے تھے کہ اچانک رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ ہٹایا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے نظر ڈالی، پھر تبسم فرمایا۔ ادھر ابو بکرؓ اپنی ایڑ کے بل پیچھے ہٹے کہ صف میں جاملیں۔ انہوں نے سمجھا کہ رسول اللہﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ (کے اس اچانک ظہور سے ) مسلمان اس قدر خوش ہوئے کہ چاہتے تھے کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑجائیں۔ (یعنی آپﷺ کی مزاج پرسی کے لیے نماز توڑ دیں ) لیکن رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرالیا۔( باب مرض النبیﷺ ۲/۲۴۰ مع فتح الباری ۲/۱۹۳ حدیث نمبر ۶۸۰، ۶۸۱،۷۵۴، ۱۲۰۵،۴۴۴۸)
اس کے بعد رسول اللہﷺ پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔
دن چڑھے چاشت کے وقت آپﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو بلا یا اور ان سے کچھ سر گوشی کی، وہ رونے لگیں تو آپﷺ نے انہیں پھر بلا یا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار ) نبیﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپﷺ اسی مرض میں وفات پاجائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپﷺ کے پیچھے جاؤں گی۔ اس پر میں ہنسی۔( بخاری ۲/۶۳۸)
نبیﷺ نے حضرت فاطمہؓکو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ساری خواتین ِ عالم کی سَیدہ (سردار ) ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو اور بشارت دینے کا یہ واقعہ حیات مبارکہ کے آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں پیش آیا تھا۔ دیکھئے: رحمۃللعالین ۱/۲۸۲
اس وقت رسول اللہﷺ جس شدید کرب سے دوچار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بے ساختہ پکار اٹھیں۔ واکرب أباہ۔ ''ہائے ابّا جان کی تکلیف ۔''آپﷺ نے فرمایا : تمہارے ابّا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں۔( صحیح بخاری ۲/۶۴۱)

آپﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر چُوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی۔ ازاوجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انہیں وعظ ونصیحت کی۔
ادھر لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا جسے آپﷺ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چنانچہ آپﷺ حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے تھے : اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھالیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کررہا ہوں۔ اس وقت مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس زہر کے اثرسے میری رگِ جاں کٹی جارہی ہے۔( صحیح بخاری ۲/۶۳۷)
ادھر چہرے پر آپﷺ نے ایک چادر ڈال رکھی تھی۔ جب سانس پھولنے لگتا تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا : (اور یہ آپﷺ کا آخری کلام اور لوگوں کے لیے آپﷺ کی آخری وصیت تھی ) کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا یا ... ان کے اس کام سے آپﷺ ڈرارہے تھے ... سرزمین عرب پر دو دین باقی نہ چھوڑ ے جائیں۔( صحیح بخاری مع فتح الباری ۱/۶۳۴ حدیث نمبر ۴۳۵، ۱۳۳۰، ۱۳۹۰، ۳۴۵۳، ۳۴۵۴،۴۴۴۱، ۴۴۴۳، ۴۴۴۴ ، ۵۸۱۵، ۵۸۱۶ ، طبقات ابن سعد ۲/۲۵۴)
آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی وصیت فرمائی۔ فرمایا :
((الصلاۃ الصلاۃ وما ملکت أیمانکم))
''نماز ، نماز ، اور تمہارے زیر ِ دست '' (یعنی لونڈی ، غلام )
آپﷺ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔( صحیح بخاری ۲/۶۳۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔