Sunday 18 October 2015

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی


ہم بتاچکے ہیں کہ جب حضرت صفیہؓ کا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق اپنی بد عہدی کے سبب قتل کردیا گیا تو حضرت صفیہؓ قیدی عورتوں میں شامل کرلی گئیں.جب خیبر کے تمام قیدی جمع کیے گئےتودحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کی درخواست کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب کرنے کی اجازت دے دی؛ انھوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کومنتخب کیا؛ لیکن ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں آکرعرض کی کہ آپ نے رئیسۂ بنونضیر وقریظہ کودحیہ کودے دیا، وہ توصرف آپ کے لیے سزاوار ہے، مقصود یہ تھا کہ رئیسۂ عرب کے ساتھ عام عورتوں کا سابرتاؤ ٹھیک نہیں؛ چنانچہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کوآپ نے دوسری لونڈی عنایت فرمائی اور صفیہ رضی اللہ عنہاکوآزاد کرکے خود نکاح کرلیا۔

(بخاری، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَايُذْكَرُ فِي الْفَخِذِ۔ صحیح مسلم:۱/۵۴۶)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کوباپ اور ماں دونوں کی جانب سے سیادت حاصل تھی، باپ کا نام حیی بن اخطب تھا، جوقبیلۂ بنونضیر کا سردار تھا اور ہارون علیہ السلام کی نسل میں شمار ہوتا تھا، ماں جس کا نام ضرد تھا، سموال رئیس قریظہ کی بیٹی تھی اور یہ دونوں خاندان (قریظہ اور نضیر) بنواسرائیل کے اُن تمام قبائل سے ممتاز سمجھے جاتے تھے؛ جنھوں نے زمانۂ دراز سے عرب کے شمالی حصوں میں سکونت اختیار کرلی تھی۔اس لیے حضور ﷺ نے انہیں اعزاز دیا ۔آپﷺ نے پہلے حضرت صفیہ پر اسلام پیش کیا۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے انھیں آزاد کر کے ان سے شادی کرلی۔ اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔ مدینہ واپسی میں سدّ ِ صہباء پہنچ کر وہ(حیض سے پاک) حلال ہوگئیں۔ اس کے بعد ام سُلیم ؓ نے انھیں آپﷺ کے لیے آراستہ کیا۔ اور رات میں آپﷺ کے پاس رخصت کردیا۔ آپ نے دولہے کی حیثیت سے ان کے ہمراہ صبح کی۔ اور کھجور ، گھی اور ستو سان کر ولیمہ کھلایا۔ اور راستہ میں تین روز شبہائے عروسی کے طور پر ان کے پاس قیام فرمایا۔( صحیح بخاری ۱/۵۴، ۲/۶۰۴ ، ۶۰۶ زادا لمعاد ۲/۱۳۷)
اس موقع پر آپﷺ نے ان کے چہرے پر ہرا نشان دیکھا۔ دریافت فرمایا: یہ کیا ہے ؟ کہنے لگیں : یا رسول اللہ ! آپﷺ کے خیبر آنے سے پہلے میں نے خواب دیکھا تھا کہ چاند اپنی جگہ سے ٹوٹ کر میری آغوش میں آگرا ہے۔ واللہ ! مجھے آپﷺ کے معاملے کا کوئی تصور بھی نہ تھا لیکن میں نے یہ خواب اپنے شوہر سے بیان کیا تو اس نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا : یہ بادشاہ جو مدینہ میں ہے تم اس کی آرزو کررہی ہو۔( ایضاً زاد المعاد ۲/۱۳۷۔ ابن ہشام ۲/۳۳۶)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے مشہور واقعات میں حج کا سفر ہے، جوانھوں نے سنہ ۱۰ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایامِ محاصرہ میں جوسنہ۳۵ھ میں ہوا تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اُن کی بے حدمدد کی تھی، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پرضروریاتِ زندگی مسدود کردی گئیں اور اُن کے مکان پرپہرہ بٹھادیا گیا تووہ خود خچر پرسوار ہوکر ان کے مکان کی طرف چلیں، غلام ساتھ تھا، اشترکی نظر پڑی توانھوں نے آکرخچر کومارنا شروع کیا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہانے کہا: مجھ کوذلیل ہونے کی ضرورت نہیں، میں واپس جاتی ہوں، تم خچر کوچھوڑدو، گھرواپس آئیں توحضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کواس خدمت پرمامور کیا کہ وہ اُن کے مکان سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس کھانا اور پانی لے جاتے تھے۔
(اصابہ:۱/۱۲۷، بحوالہ ابن سعد)

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے چند حدیثیں مروی ہیں، جن کوامام زین العابدین رضی اللہ عنہ، اسحاق بن عبداللہ بن حارث، مسلم بن صفوان، کنانہ اور یزید بن معتب، صہیرہ بنت جیفر وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
دیگر ازواج کی طرح حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اپنے زمانہ میں علم کا مرکز تھیں؛ چنانچہ جب صہیر بنت جیفر حج کرکے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس مدینہ آئیں توکوفہ کی بہت سی عورتیں مسائل دریافت کرنے کی غرض سے بیٹھی ہوئی تھیں، صہیرہ کا بھی یہی مقصد تھا، اس لیے انھوں نے کوفہ کی عورتوں سے سوال کرائے، ایک فتویٰ نیند کے متعلق تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے سنا توبولیں اہلِ عراق اِس مسئلہ کو اکثرپوچھتے ہیں۔
(مسند:۳/۳۳۷)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک کنیز تھی، جوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان کی شکایت کیا کرتی تھی؛ چنانچہ ایک دن کہا کہ ان میں یہودیت کا اثر آج تک باقی ہے، وہ یوم السبت کواچھا سمجھتی ہیں اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تصدیق کے لیے ایک شخص کوبھیجا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یوم السبت کواچھا سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس کے بدلے میں خدا نے ہم کوجمعہ کا دن عنایت فرمایا ہے؛ البتہ میں یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں، وہ میرے خویش اور اقارب ہیں، اس کے بعد لونڈی کوبلاکر پوچھا کہ تونے میری شکایت کی تھی؟ بولی، ہاں! مجھ کوشیطان نے بہکادیا تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا خاموش ہوگئیں اور اس کوآزاد کردیا۔
(اصابہ:۸/۱۲۷۔ زرقانی:۳/۲۹۶، بحوالہ ابن سعد)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی؛ چنانچہ جب آپ علیل ہوئے تونہایت حسرت سے بولیں: کاش! آپ کی بیماری مجھ کوہوجاتی، ازواج نے ان کی طرف دیکھنا شروع کیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سچ کہہ رہی ہیں، یعنی اس میں تصنع کا شائبہ نہیں ہے۔
(زرقانی:۱۳/۲۹۶)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ کسی بات پرکبیدہ خاطر ہوگئے، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور اُن سے کہا کہ میں آپ کوآج کی اپنی باری، جومیرے نزدیک سب سے محبوب چیز ہے، دیتی ہوں، آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوراضی کردیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہاری باری کا دن نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اس کے بعد واقعہ بیان کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کرحضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہوگئے۔
(مسند:۶/۱۴۵)
ایک بار آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے، دیکھا کہ رورہی ہیں، آپ نے رونے کا سبب پوچھا؛ انھوں نے کہا کہ عائشہ اور زینب کہتی ہیں کہ ہم تمام ازواج میں افضل ہیں، ہم آپ کی زوجہ ہونے کے ساتھ آپ کی چچازاد بہن بھی ہیں، آپ نے فرمایا تم نے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ ہارون میرے باپ، موسیٰ میرے چچا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میریے شوہر ہیں، اس لیے تم لوگ کیونکر مجھ سے افضل ہوسکتی ہو۔
(صحیح ترمذی:۶۳۹)
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سیرچشم اور فیاض واقع ہوئی تھیں؛ چنانچہ جب وہ اُم المؤمنین بن کرمدینہ میں آئیں توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ازواجِ مطہرات کواپنی سونے کی بجلیاں تقسیم کیں۔
(زرقانی:۳/۲۹۶)
کھانا نہایت عمدہ پکاتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تحفہ بھیجا کرتی تھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انھوں نے پیالہ میں جوکھانا بھیجا تھا اس کا ذکربخاری اور نسائی وغیرہ میں آیا ہے۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے رمضان سنہ۵۰ھ میں وفات پائی اور جنۃ البقیع میں دفن ہوئیں اس وقت ان کی عمر۶۷/ سال کی تھی،
(زرقانی:۳/۲۹۶)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔