Sunday 30 August 2015

منافقینِ مدینہ


عبد اللہ بن ابی کو اسلام اور مسلمانوں سے عموماً اور رسول اللہﷺ سے خصوصاً بڑی کَدْ تھی۔ کیونکہ اوس وخزرج اس کی قیادت پر متفق ہوچکے تھے۔ اور اس کی تاجپوشی کے لیے مونگوں کا تاج بنایا جارہا تھا کہ اتنے میں مدینہ کے اندر اسلام کی شعائیں پہنچ گئیں۔ اور لوگوں کی توجہ ابن ابی سے ہٹ گئی ، اس لیے اسے احساس تھا کہ رسول اللہﷺ نے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔
ا س کی یہ کَدْ اور جَلن ابتدائے ہجرت ہی سے واضح تھی جبکہ ابھی اس نے اسلام کااظہار بھی نہیں کیا تھا۔ پھر اسلام کا اظہار کرنے کے بعدبھی اس کی یہی روش رہی۔ چنانچہ اس کے اظہار اسلام سے پہلے ایک بار رسولﷺ گدھے پر سوار حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک مجلس سے گزر ہوا جس میں عبد اللہ بن اُبی بھی تھا۔ اس نے اپنی ناک ڈھک لی اور بو لا : ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر جب رسول اللہﷺ نے اہل مجلس پر قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگا : آپ اپنے گھر میں بیٹھئے۔ ہماری مجلس میں ہمیں نہ گھیریے۔( ابن ہشام ۱/۵۸۴ ، ۵۸۷ صحیح بخاری ۲/۹۲۴ صحیح مسلم ۲/۱۰۹) یہ اظہار ِ اسلام سے پہلے کی بات ہے ، لیکن جنگِ بدر کے بعد جب اس نے ہوا کا رُخ دیکھ کر اسلام کا اظہار کیا تب بھی وہ اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کا دشمن ہی رہا۔ اور اسلامی معاشرے میں انتشار برپا کرنے اور اسلام کی آواز کمزور کرنے کی مسلسل تدبیریں سوچتا رہا۔ وہ اعدائے اسلام سے بڑا مخلصانہ ربط رکھتا تھا، چنانچہ بنو قینقاع کے معاملے میں نہایت نامعقول طریقے سے دخل انداز ہوا تھا۔(جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے ) اسی طرح اس نے غزوۂ اُحد میں بھی شر ، بدعہدی مسلمانوں میں تفریق اور ان کی صفوں میں بے چینی وانتشار اور کھلبلی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ (اس کا بھی ذکر گزر چکا ہے )
اس منافق کے مکر وفریب کا یہ عالم تھا کہ یہ اپنے اظہارِ اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اللہﷺ خطبہ دینے کے لیے تشریف لاتے تو پہلے خود کھڑا ہو جاتا اور کہتا:لوگو!یہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ نے ان کے ذریعے تمہیں عزت واحترام بخشا ہے ، لہٰذا ان کی مدد کرو ، انہیں قوت پہنچاؤ اور ان کی بات سنو اور مانو۔ اس کے بعد بیٹھ جاتا۔ اور رسول اللہﷺ اُٹھ کر خطبہ دیتے۔ پھر اس کی ڈھٹائی اور بے حیائی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب جنگِ اُحد کے بعد پہلا جمعہ آیا کیونکہ -یہ شخص اس جنگ میں اپنی بدترین دغابازی کے باوجود خطبہ سے پہلے پھر کھڑا ہوگیا اور وہی باتیں دہرانی شروع کیں جو اس سے پہلے کہا کرتا تھا ، لیکن اب کی بار مسلمانوں نے مختلف اطراف سے ا س کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا : او اللہ کے دشمن ! بیٹھ جا۔ تو نے جو جوحرکتیں کی ہیں اس کے بعد اب تو ا س لائق نہیں رہ گیا ہے۔ اس پر وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا کہ میں ان صاحب کی تائید کے لیے اٹھا تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کوئی مجرمانہ بات کہہ دی۔ اتفاق سے دروازے پر ایک انصاری سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کہا : تیری بربادی ہو۔ واپس چل ! رسول اللہﷺ تیرے لیے دعائے مغفرت کردیں گے۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہیں چاہتاکہ وہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں۔( ابن ہشام ۲/۱۰۵)
علاوہ ازیں ابن اُبی ّ نے بنونضیر سے بھی رابطہ قائم کررکھا تھا۔ اور ان سے مل کر مسلمانوں کے خلاف درپردہ سازشیں کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ابن اُبی ّ اور اس کے رفقاء نے جنگ ِ خندق میں مسلمانوں کے اندر اضطراب اور کھلبلی مچانے اور انہیں مرعوب ودہشت زدہ کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے تھے۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کی حسب ذیل آیات میں کیا ہے:
''اور جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہہ رہے تھے کہ ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا تھا وہ محض فریب تھا۔ اور جب ان میں سے ایک گروہ کہہ رہا تھا کہ اے یثرب والو ! اب تمہارے لیے ٹھہرنے کی گنجائش نہیں لہٰذا پلٹ چلو۔ اور ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبی سے اجازت طلب کررہا تھا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں ( یعنی ان کی حفاظت کا انتظام نہیں ) حالانکہ وہ کھلے پڑ ے نہ تھے۔ یہ لوگ محض بھاگنا چاہتے تھے۔ اور اگر شہر کے اطراف سے ان پر دھاوا بول دیا گیا ہوتا۔ اور ان سے فتنے (میں شرکت ) کا سوال کیا گیا ہو تا تو یہ اس میں جاپڑتے۔ اور بمشکل ہی کچھ رکتے۔ انہوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھیریں گے۔ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پُرس ہو کر رہنی ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم موت یا قتل سے بھاگوگے تو یہ بھگدڑ تمہیں نفع نہ دے گی۔ اور ایسی صورت میں تمتع کا تھوڑا ہی موقع دیا جائے گا۔ آپ کہہ دیں کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچاسکتا ہے اگر وہ تمہارے لیے برا ارادہ کرے یا تم پر مہربانی کرنا چاہے۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو حامی ومدد گار نہیں پائیں گے۔ اللہ تم میں سے ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو روڑے اٹکاتے ہیں۔ اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آؤ۔ اور جو لڑائی میں محض تھوڑا سا حصہ لیتے ہیں۔ جو تمہارا ساتھ دینے میں انتہائی بخیل ہیں۔ جب خطرہ آپڑے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دے دے پھر اپھرا کر دیکھتے ہیں جیسے مرنے والے پر موت طاری ہورہی ہے۔ اور جب خطرہ ٹل جائے تو مال ودولت کی حِرص میں تمہار ااستقبال تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی زبانوں سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت ایمان ہی نہیں لائے ہیں۔ اس لیے اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے۔ اور اللہ پر یہ بات آسان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ (پھرپلٹ کر ) آجائیں تو یہ چاہیں گے کہ بدوؤں کے درمیان بیٹھے تمہاری خبر پوچھتے رہیں۔اور اگر یہ تمہارے درمیان رہیں بھی تو کم ہی لڑائی میں حصہ لیں گے۔'' ( سورۃ الاحزاب۳۳: ۱۲تا ۲۰)
ان آیا ت میں موقع کی مناسبت سے منافقین کے انداز ِ فکر ، طرز عمل ، نفسیات اور خود غرضی وموقع پرستی کا ایک جامع نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔


ان سب کے باوجود یہود ، منافقین اور مشرکین غرض سارے ہی اعدائے اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اسلام کے غلبے کا سبب مادّی تفوُّق ،اور اسلحے لشکر اور تعداد کی کثرت نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سبب وہ اللہ پر ستی اور اخلاقی قدریں ہیں جن سے پورا اسلامی معاشرہ اور دین ِ اسلام سے تعلق رکھنے والا ہر فرد سرفراز وبہرہ مند ہے۔ ان اعدائے اسلام کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس فیض کا سر چشمہ رسول اللہﷺ کی ذات گرامی ہے ، جو ان اخلاقی قدروں کا معجزے کی حد تک سب سے بلند نمونہ ہے۔
اسی طرح یہ اعدائے اسلام چار پانچ سال تک برسرِ پیکار رہ کر یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس دین اور اس کے حاملین کو ہتھیار وں کے بل پر نیست و نابود کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے انہوں نے غالبا ًیہ طے کیا کہ اخلاقی پہلو کو بنیاد بنا کراس دین کے خلاف وسیع پیمانے پر پر وپیگنڈے کی جنگ چھیڑ دی جائے۔ اور اس کا پہلا نشانہ خاص رسول اللہﷺ کی شخصیت کو بنایا جائے چونکہ منافقین مسلمانوں کی صف میں پانچواں کالم تھے۔ اور مدینہ ہی کے اندر رہتے تھے۔ مسلمانوں سے بلا تردُّد مل جل سکتے تھے۔ اور ان کے احساسات کو کسی بھی ''مناسب ''موقع پر بآسانی بھڑ کا سکتے تھے۔ اس لیے اس پروپیگنڈے کی ذمہ داری ان منافقین نے اپنے سر لی ، یا ان کے سر ڈالی گئی اور عبد اللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین نے اس کی قیادت کا بیڑ ااٹھایا۔
ان کا پروگرام اس وقت ذرا زیادہ کھل کر سامنے آیا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے حضرت زینب کو طلاق دی۔ اور نبیﷺ نے ان سے شادی کی۔ چونکہ عرب کا دستور یہ چلا آرہا تھا کہ وہ مُتَبَنّیٰ (منہ بولے بیٹے ) کو اپنے حقیقی لڑکے کا درجہ دیتے تھے۔ اور اس کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھتے تھے ، اس لیے جب نبیﷺ نے حضرت زینب سے شادی کی تو منافقین کو نبیﷺ کے خلاف شور وشغب برپا کرنے کے لیے اپنی دانست میں دو کمزور پہلو ہاتھ آئے۔
ایک یہ کہ حضرت زینب آپﷺ کی پانچویں بیوی تھیں۔ جبکہ قرآن نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس لیے یہ شادی کیونکر درست ہوسکتی ہے ؟
دوسرے یہ کہ زینب آپﷺ کے بیٹے -یعنی منہ بولے بیٹے - کی بیوی تھیں۔ اس لیے عرب دستور کے مطابق ان سے شادی کر نا نہایت سنگین جرم اور زبردست گناہ تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اور طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے۔ کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ محمد نے زینب کو اچانک دیکھا اور ان کے حسن سے اس قدر متأثر ہوئے کہ نقد دل دے بیٹھے۔ اور جب ان کے صاحبزادے زید کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے زینب کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خالی کردیا۔
منافقین نے اس افسانے کا اتنی قوت سے پروپیگنڈہ کیا کہ اس کے اثرات کتب احادیث وتفاسیر میں اب تک چلے آرہے ہیں۔ اس وقت یہ سارا پروپیگنڈہ کمزور اور سادہ لوح مسلمانوں کے اندر اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ بالآخر قرآن مجید میں اس کی بابت واضح آیات نازل ہوئیں۔ جن کے اندر شکوک ِ پنہاں کی بیماری کا پورا پورا علاج تھا۔ اس پر وپیگنڈے کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سورۂ احزاب کا آغاز ہی اس آیت کریمہ سے ہوا۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِ‌ينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿١﴾ (۳۳: ۱)
''اے نبی ، اللہ سے ڈرو۔ اور کافرین ومنافقین سے نہ دبو۔ بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔''
یہ منافقین کی حرکتوں اور کارروائیوں کی طرف ایک طائرانہ اشارہ اور ان کاایک مختصر ساخاکہ ہے۔ نبیﷺ یہ ساری حرکتیں صبر ، نرمی اور تلطف کے ساتھ برداشت کررہے تھے۔ اور عام مسلمان بھی ان کے شر سے دامن بچا کر صبر و برداشت کے ساتھ رہ رہے تھے۔ کیونکہ انہیں تجربہ تھا کہ منافقین قدرت کی طرف سے رہ رہ کر رسواکیے جاتے رہیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے :
أَوَلَا يَرَ‌وْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّ‌ةً أَوْ مَرَّ‌تَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُ‌ونَ (۹: ۱۲۶)
''وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں ہر سال ایک بار یادو بار فتنے میں ڈالاجاتا ہے، پھروہ نہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔