Sunday 30 August 2015

غزوہِ احزاب اور قریظہ کے بعد کی جنگی مہمات - سلام بن ابی حقیق کا قتل


سلام بن ابی الحقیق - جس کی کنیت ابو رافع تھی - یہود کے ان اکابر مجرمین میں تھا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ورغلا نے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اور مال اور رسد سے ان کی امداد کی تھی۔( فتح الباری ۷/۳۴۳)اس کے علاوہ رسول اللہﷺ کو ایذا بھی پہنچاتا تھا۔ اس لیے جب مسلمان بنو قریظہ سے فارغ ہوچکے تو قبیلہ خزرج کے لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی چونکہ اس سے پہلے کعب بن اشرف کا قتل قبیلہ ٔ اوس کے چند صحابہ کے ہاتھوں ہوچکاتھا ، اس لیے قبیلہ خزرج کی خواہش تھی کہ ایسا ہی کوئی کارنامہ ہم بھی انجام دیں ، اس لیے انہوں نے اجازت مانگنے میں جلدی کی۔
رسول اللہﷺ نے انہیں اجازت تو دے دی لیکن تاکید فرمادی کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ اس کے بعد ایک مختصر سادستہ جو پانچ آدمیوں پر مشتمل تھا اپنی مہم پر روانہ ہوا۔ یہ سب کے سب قبیلہ ٔ خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے کمانڈر حضرت عبد اللہ بن عتیک تھے۔
اس جماعت نے سیدھے خیبر کا رخ کیا کیونکہ ابورافع کا قلعہ وہیں تھا۔ جب قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا۔ اور لوگ اپنے ڈھور ڈنگر لے کر واپس ہو چکے تھے۔ عبداللہ بن عتیک نے کہا : تم لوگ یہیں ٹھہرو۔ میں جاتا ہوں اور دروازے کے پہرے دار کے ساتھ کوئی لطیف حیلہ اختیار کرتاہوں۔ ممکن ہے اندر داخل ہوجائوں۔اس کے بعد وہ تشریف لے گئے اور دروازے کے قریب جاکر سرپرکپڑا ڈال کر یوں بیٹھ گئے گویا قضائے حاجت کررہے ہیں۔ پہرے دار نے زور سے پکار کر کہا : اواے اللہ کے بندے ! اگر اندر آنا ہے تو آجاؤ ورنہ میں دروازہ بند کرنے جارہا ہوں۔
عبد اللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں اندر گھس گیا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو پہرے دار نے دروازہ بند کرکے ایک کھونٹی پر چابیاں لٹکا دیں۔ (کچھ دیر بعد جب ہر طرف سکون ہو گیا تو ) میں نے اٹھ کر چابیاں لیں۔ اور دروازہ کھول دیا۔ ابو رافع بالاخانے میں رہتا تھا۔ اور وہاں مجلس ہواکرتی تھی۔ جب اہل مجلس چلے گئے تو میں اس کے بالاخانے کی طرف چڑھا۔ میں جو کوئی دروازہ بھی کھولتا تھا اسے اندر کی جانب سے بند کر لیتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگوں کو میرا پتہ لگ بھی گیا تو اپنے پاس ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے ابو رافع کو قتل کرلوں گا۔ اس طرح میں اس کے پاس پہنچ تو گیا ،(لیکن ) وہ اپنے بال بچوں کے درمیان ایک تاریک کمرے میں تھا۔ اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کس جگہ ہے۔ اس لیے میں نے کہا : ابو رافع ! اس نے کہا : یہ کون ہے ؟ میں نے جھٹ آواز کی طرف لپک کر اس پر تلوار کی ایک ضرب لگائی لیکن میں اس وقت ہڑبڑایا ہوا تھا۔ اس لیے کچھ نہ کر سکا۔ ادھر اس نے زور کی چیخ ماری۔ لہٰذا میں جھٹ کمرے سے باہر نکل گیا اور ذرا دور ٹھہرکر پھر آگیا۔ اور (آواز بدل کر ) بو لا: ابو رافع ! یہ کیسی آوازتھی؟ اس نے کہا : تیری ماں برباد ہو۔ ایک آدمی نے ابھی مجھے اس کمرے میں تلوار ماری ہے۔ عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ اب میں نے ایک زور دار ضرب لگائی۔ جس سے وہ خون میں لت پت ہوگیا لیکن اب بھی میں اسے قتل نہ کرسکا تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبا دیا۔ اور وہ اس کی پیٹھ تک جارہا۔ میں سمجھ گیا کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے۔ اس لیے اب میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا واپس ہوا اور ایک سیڑھی کے پاس پہنچ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ زمین تک پہنچ چکا ہوں۔ پاؤں رکھا تو نیچے گرپڑا۔ چاندنی رات تھی۔ پنڈلی سرک گئی ، میں نے پگڑی سے اسے کس کر باندھا۔ اور دروازے پر آکر بیٹھ گیا۔ اور جی ہی جی میں کہا کہ آج جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے یہاں سے نہیں نکلوں گا۔ چنانچہ جب مرغ نے بانگ دی تو موت کی خبر دینے والا قلعے کی فصیل پر چڑھا۔ اوربلند آواز سے پکار اکہ میں اہلِ حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی اطلاع دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور کہا: بھاگ چلو۔ اللہ نے ابو رافع کو کیفر ِ کردار تک پہنچا دیا۔ چنانچہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ اور آپ سے واقعہ بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا ، آپﷺ نے اس پر اپنا دست مُبارک پھیرا۔ اور ایسا لگا گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔( صحیح بخاری ۲/۵۷۷)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔