Sunday 30 August 2015

بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط - نجاشی شاہِ حبش کے نام خط


اس نجاشی کا نام اَصْحَمہ بن اَبْجَر تھا۔ نبیﷺ نے اس کے نام جو خط لکھا اسے عَمرو بن امیہ ضمری کے بدست ۶ ھ کے اخیر یا ۷ ھ کے شروع میں روانہ فرمایا۔بیہقی نے ابن عباسؓ سے خط کی عبارت روایت کی ہے جسے نبیﷺ نے نجاشی کے پاس روانہ کیا تھا۔ اس کا ترجمہ یہ ہے :
''یہ خط ہے محمد نبی کی طرف سے نجاشی اصحم شاہ ِ حبش کے نام ، اس پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس نے نہ کوئی بیوی اختیار کی نہ لڑکا۔ اور ( میں اس کی بھی شہادت دیتاہوں کہ ) محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ میں اس کا رسول ہوں۔ لہٰذا تم اسلام لاؤ سلامت رہوگے۔'' اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور عبادت نہ کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے بعض بعض کو اللہ کے بجائے رب نہ بنائے۔ پس آگر وہ منہ موڑ یں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں ۔'' اگر تم نے(یہ دعوت ) قبول نہ کی تو تم پر اپنی قوم کے نصاریٰ کا گناہ ہے۔''(مستدر ک حاکم ۲/۶۲۳،دلائل النبوۃ ، بیہقی ۲/۳۰۸)
ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے ایک اور خط کی عبارت درج فرمائی ہے۔ جو ماضی قریب میں دستیاب ہوا ہے اور صرف ایک لفظ کے اختلاف کے ساتھ یہی خط علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی موجود ہے۔ ڈاکٹرصاحب موصوف نے اس خط کی عبارت کی تحقیق میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ دَورِ جدید کے اکتشافات سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے اور اس خط کا فوٹو کتا ب کے اندر ثبت فرمایا ہے۔
اس کا ترجمہ یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی جانب سے نجاشی عظیم حبشہ کے نام !!
اس شخص پرسلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔ امابعد!میں تمہاری طرف اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں،جو قدوس اور سلام ہے۔ امن دینے والا محافظ ونگراں ہے۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ اللہ نے انہیں پاکیزہ اور پاکدامن مریم بتول کی طرف ڈال دیا۔ اور اس کی روح اور پھونک سے مریم عیسیٰ کے لیے حاملہ ہوئیں۔ جیسے اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ میں اللہ وحدہ لاشریک لہ کی جانب اور اس کی اطاعت پر ایک دوسرے کی مددکی جانب دعوت دیتا ہوں۔ اور اس بات کی طرف (بلاتا ہوں ) کہ تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میرے پاس آیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ میں اللہ کا رسول (ﷺ ) ہوں۔ اور میں تمہیں اور تمہارے لشکر کو اللہ عزوجل کی طرف بلاتا ہوں۔ اورمیں نے تبلیغ ونصیحت کردی۔ لہٰذا میری نصیحت قبولکرو۔ اور اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے۔''(رسول اکرم کی سیاسی زندگی ، مولفہ ڈاکٹر حمید اللہ ص ۱۰۸ ، ۱۰۹ ، ۱۲۲، ۱۲۳ ، ۱۲۴، ۱۲۵، زاد المعاد میں آخری فقرہ والسلام علی من اتبع الہدی کے بجا ئے أسلم أنت ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد ۳/۶۰)
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے بڑے یقینی انداز میں کہا ہے کہ یہی وہ خط ہے جسے رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے بعد نجاشی کے پاس روانہ فرمایا تھا۔
بہرحال جب عَمرو بن امیہ ضمریؓ نے نبیﷺ کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا اور تخت سے زمین پر اتر آیا۔ اور حضرت جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اور نبیﷺ کے پاس اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد رسول اللہ کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے !!
اے اللہ کے نبی! آپ پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو۔ وہ اللہ جس کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں۔ اما بعد!
اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا۔ جس میں آپ نے عیسیٰ ؑ کا معاملہ ذکر کیا ہے۔ رب آسمان وزمین کی قسم! آپ نے جو کچھ فرمایا ہے حضرت عیسیٰ اس سے ایک تنکہ بڑھ کر نہ تھے۔ وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے ذکر فرمایا ہے۔ 1پھر آپ نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپ کے صحابہ کی مہمان نوازی کی۔ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں۔ اور میں نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے چچیرے بھائی سے بیعت کی۔ اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لیے اسلام قبول کیا۔( زادا لمعاد ۳/۶۱)
نبیﷺ نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ حضرت جعفر اور دوسرے مہاجرین ِ حبشہ کو روانہ کردے۔ چنانچہ اس نے حضرت عمرو بن امیہ ضمری کے ساتھ دوکشتیوں میں ان کی روانگی کا انتظام کردیا۔ ایک کشتی کے سوار جس میں حضرت جعفر اور حضرت ابو موسیٰ اشعری اور کچھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے ، براہ راست خیبر پہنچ کر خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ اور دوسری کشتی کے سوار جن میں زیادہ تر بال بچے تھے سیدھے مدینہ پہنچے۔( ابن ہشام ۲/۳۵۹)
مذکورہ نجاشی نے غزوہ تبوک کے بعد رجب ۹ ھ میں وفات پائی۔ نبیﷺ نے اس کی وفات ہی کے دن صحابہ کرام کو اس کی موت کی اطلاع دی۔ اور اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ اس کی وفات کے بعد دوسرا بادشاہ اس کا جانشین ہوکر سریرآرائے سلطنت ہوا تو نبیﷺ نے اس کے پاس بھی ایک خط روانہ فرمایا لیکن یہ نہ معلوم ہوسکا کہ اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔