Thursday 7 May 2015

یثرب میں یہود کے تین مشہور قبیلے


یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے:
بنو قینقاع:... یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی۔
بنو نضیر اور بنو قریظہ:...یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ا ن دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی۔
ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیا ن جنگ کے شعلے بھڑکارہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے۔
فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سواکوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو، جواُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی، سکون ملتا۔ پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی۔ بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی۔تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابندبناتی تھی۔اِ س کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماًوہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے ، لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلا عوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیالیا تھا۔
جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کررکھا تھا۔ اسی لیے یثرب میں رسول اللہﷺ کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی ، اگرچہ وہ اس کے مظاہر ے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے۔ اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن ِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے۔
ان کاارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب ؓ سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی۔ میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھا تے۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے اور قباء میں بنو عمر و بن عوف کے یہاں نزول فرماہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپﷺ کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے۔ بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے۔ میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی ، لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے:
کیا یہ وہی ہے ؟
انہوں نے کہا : ہاں ! اللہ کی قسم۔
چچا نے کہا: آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں ؟
والد نے کہا: ہاں!
چچانے کہا : تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں؟
والد نے کہا : عداوت - اللہ کی قسم -جب تک زندہ رہوں گا۔
( ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹)
اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے۔ آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپﷺ کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبیﷺ کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ پھر آپﷺ سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے۔ اگر انہیں اس سے قبل کہ آپﷺ کچھ دریافت فرمائیں ، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے۔ لہٰذا رسول اللہﷺ نے یہود کو بلا بھیجا۔ وہ آئے - اور ادھر عبد اللہؓ بن سلام گھر کے اندر چھپ گئے تھے - تو رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کہ عبد اللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ''ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں، ہمارے سب اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں'' ...ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں ، اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں...رسول اللہ نے فرمایا : ''اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو؟'' یہود نے دو تین بار کہا: اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلامؓ برآمد ہوئے اور فرمایا: أشہد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمداً رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ) اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے
شرّنا وابن شرّنا''یہ ہمارا سب سے بُرا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے۔'' اور (اسی وقت) ان کی برائیاں شروع کردیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے فرمایا: ''اے جماعتِ یہود! اللہ سے ڈرو۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تم لوگ جانتے ہو کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپﷺ حق لے کر تشریف لائے ہیں ،'' لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو۔( صحیح بخاری ۱/۴۵۱ ، ۵۵۶ ، ۵۶۱)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔