Sunday 24 May 2015

لشکرِ کفار کے بارے میں اہم معلومات کا حصول


اس کے بعد رسول اللہﷺ ذفران سے آگے بڑھے اور چند پہاڑی موڑ سے گزر کر جنہیں اصافر کہا جاتا ہے دیت نامی ایک آبادی میں اترے۔ اور حنان نامی پہاڑ نماتودے کو دائیں ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور اس کے بعد بدر کے قریب نزول فرمایا۔
یہاں پہنچ کر رسول اللہﷺ نے اپنے رفیق ِ غار حضرت ابوبکرؓ کو ہمراہ لیا اور حود فراہمی ٔ اطلاعات کے لیے نکل پڑے۔ ابھی دور ہی سے مکی لشکر کے کیمپ کا جائزہ لے رہے تھے کہ ایک بوڑھا عرب مل گیا۔ رسول اللہﷺ نے اس سے قریش اور محمدﷺ واصحابِ محمد کا حال دریافت کیا - دونوں لشکر وں کے متعلق پو چھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپﷺ کی شخصیت پر پردہ پڑارہے - لیکن بڈھے نے کہا :'' جب تک تم لوگ یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمہارا تعلق کس قوم سے ہے میں بھی کچھ نہیں بتاؤں گا۔'' رسول اللہﷺ نے فرمایا : جب تم ہمیں بتادو گے تو ہم بھی تمہیں بتادیں گے۔ اس نے کہا : اچھا تو یہ اس کے بدلے ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی فلاں روز نکلے ہیں۔ اگر مجھے بتانے والے نے صحیح بتایا ہے تو آج وہ لوگ فلاں جگہ ہوں گے۔اور ٹھیک اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں اس وقت مدینے کا لشکر تھا اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قریش فلاں دن نکلے ہیں۔ اگر خبر دینے والے نے صحیح خبر دی ہے تو وہ آج فلاں جگہ ہوں گے۔اور ٹھیک اس جگہ کا نام لیا جہاں اس وقت مکے کا لشکر تھا۔
جب بڈھا اپنی بات کہہ چکاتو بولا : اچھا اب یہ بتاؤ کہ تم دونوں کس سے ہو ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم لوگ پانی سے ہیں اور یہ کہہ کر واپس چل پڑے۔ بڈھا بکتا رہا۔ ''پانی سے ہیں ''کیا ؟ کیا عراق کے پانی سے ہیں؟
اسی روز شام کو آپﷺ نے دشمن کے حالات کا پتا لگانے کے لیے نئے سرے سے جاسوسی دستہ روانہ فرمایا۔ اس کاروائی کے لیے مہاجرین کے تین قائد علی بن ابی طالب ، زُبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ یہ لوگ سیدھے بدر کے چشمے پر پہنچے۔ وہاں دوغلام مکی لشکر کے لیے پانی بھر رہے تھے۔ انہیں گرفتار کر لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر کیا۔ اس وقت آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں سے حالات دریافت کیے۔ انہوں نے کہا : ہم قریش کے سقے ہیں ، انہوں نے ہمیں پانی بھرنے کے لیے بھیجا ہے قوم کو یہ جواب پسندنہ آیا۔ انہیں توقع تھی کہ یہ دونوں ابوسفیان کے آدمی ہوں گے -- کیونکہ ان کے دلوں میں اب بھی بچی کھچی آرزو رہ گئی تھی کہ قافلے پر غلبہ حاصل ہو -- چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان دونوں کی ذرا سخت پٹائی کردی اور انہوں نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ہاں ہم ابو سفیان کے آدمی ہیں۔ اس کے بعدمارنے والوں نے ہاتھ روک لیا۔
رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ناراضی سے فرمایا : جب ان دونوں نے صحیح بات بتائی تو آپ لوگوں نے پٹائی کردی اور جب جھوٹ کہا تو چھوڑدیا۔ اللہ کی قسم! ان دونوں نے صحیح کہا تھاکہ یہ قریش کے آدمی ہیں۔
اس کے بعدآپ نے ان دونوں غلاموں سے فرمایا : اچھا ! اب مجھے قریش کے متعلق بتاؤ۔ انہوں نے کہا : یہ ٹیلہ جو وادی کے آخری دہانے پر دکھائی دے رہا ہے قریش اسی کے پیچھے ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا : لوگ کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا : بہت ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا : تعداد کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہمیں معلوم نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : روزانہ کتنے اُونٹ ذبح کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : ایک دن نو اور ایک دن دس۔ آپﷺ نے فرمایا : تب لوگوں کی تعداد نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے۔ پھر آپﷺ نے پوچھا : ان کے اندر معززین قریش میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے کہا : ربیعہ کے دونوں صاحبزادے عتبہ اور شیبہ اور ابو البختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوَفل بن خُوَیْلد ، حارث بن عامر ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود ، ابوجہل بن ہشام ، اُمیہ بن خلف اور مزید کچھ لوگوں کے نام گنوائے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ''مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔