Thursday 7 May 2015

حضرت عمر بن الخطاب کی حجرت


ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا.
حضرت عمرؓ نے بیس صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ہجرت کی تھی۔( صحیح بخاری ۱/۵۵۸)
ایک روایت میں ہے کہ عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص بن وائل نے آپ سے طے کیا طے کیا کہ فلاں جگہ صبح صبح اکٹھے ہوکر وہیں سے مدینہ کو ہجرت کی جائے گی۔ حضرت عمرؓ اور عیاش تو وقت مقررہ پر آگئے لیکن ہشام کو قید کر لیا گیا۔
پھر جب یہ دونوں حضرات مدینہ پہنچ کر قبا میں اتر چکے توعیاش کے پاس ابوجہل اور اس کا بھائی حارث پہنچے۔ تینوں کی ماں ایک تھی۔ ان دونوں نے عیاش سے کہا : تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لے گی سر میں کنگھی نہ کرے گی اور دھوپ چھوڑ کر سائے میں نہ آئے گی۔ یہ سن کر عیاش کو اپنی ماں پر ترس آگیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ کیفیت دیکھ کر عیاش سے کہا : عیاش ! دیکھو اللہ کی قسم یہ لوگ تم کو محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ کی قسم! اگر تمہاری ماں کو جوؤں نے اذیت پہنچائی توکنگھی کرلے گی اور اسے مکہ کی ذرا کڑی دھوپ لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی۔ مگر عیاش نہ مانے ، انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کرلیا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو۔ یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے۔ اس کی پیٹھ نہ چھوڑ نا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا۔
عیاش اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ ابوجہل نے کہا : بھئی میرا یہ اونٹ تو بڑاسخت نکلا۔ کیوں نہ تم مجھے بھی اپنی اس اونٹنی پر پیچھے بٹھالو۔ عیاش نے کہا : ٹھیک ہے اور اس کے بعد اونٹنی بٹھادی۔ ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاںبٹھائیں۔ تاکہ ابوجہل عیاش کی اونٹنی پر پلٹ آئے ، لیکن جب تینوں زمین پر آگئے تو یہ دونوں اچانک عیاش پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے جکڑ کر باندھ دیا اور اسی بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا کہ اے اہلِ مکہ ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے۔ ہشام اور عیاش کفار کی قید میں پڑے رہے۔ جب رسول اللہﷺ ہجرت فرماچکے تو آپ نے ایک روز کہا۔ کون ہے جو میرے لیے ہشام اور عیاش کو چھڑا لائے۔ ولید بن ولید نے کہا: میں آپ کے لیے ان کو لانے کا ذمہ دار ہوں۔ پھر ولید خفیہ طور پر مکہ گئے اور ایک عورت (جو ان دونوں کے پاس کھانا لے جارہی تھی اس کے) پیچھے پیچھے جاکر ان کا ٹھکانا معلوم کیا۔ یہ دونوں ایک بغیر چھت کے مکان میں قید تھے۔ رات ہوئی تو حضرت ولید دیوار پھلانگ کر ان دونوں کے پاس پہنچے۔اور بیڑیاں کاٹ کر اونٹ پر بٹھایا اور مدینہ بھاگ آئے۔ (ابن ہشام ۱/۴۷۴ -۴۷۶ )

عازمین ہجرت کا علم ہوجانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے۔ اس کے یہ تین نمونے ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے۔ چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہﷺ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علی ؓ کے علاوہ ایک بھی مسلمان باقی نہ رہا -- یہ دونوں حضرات رسول اللہﷺ کے حسب ارشاد رکے ہوئے تھے،البتہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا۔ رسول اللہﷺ بھی اپنا ساز وسامان تیار کر کے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کا رخت سفر بھی بندھا ہواتھا۔( زاد المعاد ۲/۵۲)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔