Sunday 24 May 2015

جنگِ بدر پر قرآن کا تبصرہ


اسی غزوے کے تعلق سے سورۂ انفال نازل ہوئی جو درحقیقت اس غزوے پر ایک الٰہی تبصرہ ہے ...گر یہ تعبیر صحیح ہو ...اور یہ تبصرہ بادشاہوں اور کمانڈروں وغیرہ کے فاتحانہ تبصروں سے بالکل ہی جدا گانہ ہے۔ اس تبصرے کی چند باتیں مختصراً یہ ہیں :
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی نظر ان کو تاہیوں اور اخلاقی کمزوریوں کی طرف مبذول کرائی جوان میں فی الجملہ باقی رہ گئیں تھیں۔اور جن میں سے بعض بعض کا اظہار اس موقع پر ہوگیا تھا۔ اس توجہ دہانی کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے پاک صاف کر کے کا مل ترین بن جائیں۔
اس کے بعداس فتح میں اللہ تعالیٰ کی جو تائید اور غیبی مدد شامل تھی ، اس کا ذکر فرمایا۔ اس کا مقصود یہ تھا کہ مسلمان اپنی شجاعت وبسالت کے فریب میں نہ آجائیں۔ جس کے نتیجے میں مزاج وطبائع پر غرور وتکبر کا تسلط ہو جاتا ہے ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کریں اور اس کے اور پیغمبرﷺ کے اطاعت کیش رہیں۔
پھر ان بلند اغراض ومقاصد کاتذکرہ کیاگیا ہے جن کے لیے رسول اللہﷺ نے اس خوفناک اور خون ریز معرکے میں قدم رکھا تھا اور اسی ضمن میں ان اخلاق واوصاف کی نشان دہی کی گئی ہے جو معرکوں میں فتح کا سبب بنتے ہیں۔
پھر مشرکین ومنافقین کو اور یہود اور جنگی قیدیوں کو مخاطب کرکے فصیح وبلیغ نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ حق کے سامنے جھک جائیں اور اس کے پابند بن جائیں۔
اس کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت کے معاملے میں مخاطب کرتے ہوئے انہیں اس مسئلے کے تمام بنیادی قواعد و اصول سمجھائے اور بتائے گئے ہیں۔
پھر اس مرحلے پر اسلامی دعوت کو جنگ وصلح کے جن قوانین کی ضرورت تھی ان کی توضیح اور مشروعیت ہے تاکہ مسلمانوں کی جنگ اور اہل ِ جاہلیت کی جنگ میں امتیاز قائم ہوجائے ، اور اخلاق وکردار کے میدان میں مسلمانوں کو برتری حاصل رہے ، اور دنیا اچھی طرح جان لے کہ اسلام محض ایک نظر یہ نہیں ہے بلکہ وہ جن اصولوں اور ضابطوں کا داعی ہے ان کے مطابق اپنے ماننے والوں کی عملی تربیت بھی کرتا ہے۔
پھر اسلامی حکومت کے قوانین کی کئی دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے دائرے میں بسنے والے مسلمان اور اس دائرے سے باہر رہنے والے مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔
متفرق واقعات:
۲ ھ میں رمضان کا روزہ اور صدقۂ فطر فرض کیا گیا اور زکوٰۃ کے مختلف نصابوں کی تفصیلاً تعیین کی گئی۔ صدقۂ فطر کی فرضیت اور زکوٰۃ کے نصاب کی تعیین سے اس بوجھ اور مشقت میں بڑی کمی آگئی جس سے فقراء مہاجرین کی ایک بڑی تعداد دوچار تھی ، کیونکہ وہ طلب رزق کے لیے زمین میں دوڑ دھوپ کے امکانات سے محروم تھے۔
پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی میں پہلی عید جو منائی وہ شوال ۲ ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے بعد پیش آئی۔ کتنی خوشگوار تھی یہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی اور کتنا ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر ادا کیا تھا۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اوراس کی کی ہوئی تائید کے سبب اس کی رحمت ورضوان کے شوق سے لبریز اور اس کی طرف رغبت کے جذبات سے معمور تھے اور ان کی پیشانیاں اس کے شکر وسپاس کی ادائیگی کے لیے جھکی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا ذکر اس آیت میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُ‌وا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِ‌هِ وَرَ‌زَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ (۸: ۲۶)
''اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ، زمین میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے ، ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے، پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایا اور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔''

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔