Wednesday 18 February 2015

عام الحزن اور ابو طالب کی وفات


ابو طالب کا مرض بڑھتا گیا اور بالآخر وہ انتقال کر گئے۔ ان کی وفات شعب ابی طالب کی محصوری کے خاتمے کے چھ ماہ بعد رجب ۱۰ نبوی میں ہوئی۔ سیرت کے مآخذ میں بڑا اختلاف ہے کہ ابو طالب کی وفات کس مہینے میں ہوئی؟ ہم نے رجب کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ بیشتر مآخذ کا اتفاق ہے کہ ان کی وفات شعب ابی طالب سے نکلنے کے چھ ماہ بعد ہوئی اور محصوری کا آغاز محرم ۷ نبوی کی چاند رات سے ہوا تھا۔ اس حساب سے ان کی موت کا زمانہ رجب ۱۰ نبوی ہی ہوتا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت مسیبؒ سے مروی ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو نبیﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے، وہاں ابو جہل بھی موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: چچا جان ! آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیجیے۔ بس ایک کلمہ جس کے ذریعے میں اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کرسکوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے کہا : ابوطالب ! کیا عبدالمطلب کی ملت سے رخ پھیر لو گے؟ پھر یہ دونوں برابر ان سے بات کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو ابو طالب نے لوگوں سے کہی یہ تھی کہ ''عبد المطلب کی ملت پر۔''
نبیﷺ نے فرمایا: میں جب تک آپ سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے دعائے مغفر ت کرتا رہوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴿١١٤﴾ (۹: ۱۱۳)
''نبی (ﷺ ) اور اہل ایمان کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ اگرچہ وہ قربت دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر واضح ہوچکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔''
اور یہ آیت بھی نازل ہوئی :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ (۲۸: ۵۶)
''آپ جسے پسند کریں ہدایت نہیں دے سکتے۔''(صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸)
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ابو طالب نے نبیﷺ کی کس قدر حمایت وحفاظت کی تھی۔ وہ درحقیقت مکے کے بڑوں اور احمقوں کے حملوں سے اسلامی دعوت کے بچاؤ کے لیے ایک قلعہ تھے لیکن وہ بذاتِ خود اپنے بزرگ آباء و اجداد کی ملت پر قائم رہے۔ اس لیے مکمل کامیابی نہ پاسکے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے دریافت کیا کہ آپ اپنے چچا کے کیا کام آسکے ؟ کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے (دوسروں پر ) بگڑتے (اور ان سے لڑائی مول لیتے ) تھے۔ آپ نے فرمایا : وہ جہنم کی ایک چھچھلی جگہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے گہرے کھڈ میں ہوتے۔
ابوسعید خدریؓ کا بیان ہے کہ ایک بار نبیﷺ کے پاس آپ کے چچا کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا : ممکن ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت فائدہ پہنچا دے اور انہیں جہنم کی ایک اوتھلی جگہ میں رکھ دیا جائے ، جو صرف ان کے دونوں ٹخنوں تک پہنچ سکے۔
(صحیح بخاری باب قصۃ ابی طالب ۱/۵۴۸)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔