Wednesday 18 February 2015

قریش کا نمائندہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں


ان دونو ں بطلِ جلیل، یعنی حضرت حمزہ بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے مسلمان ہوجانے کے بعد ظلم وطغیان کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے اور مسلمانوں کو جور وستم کا تختۂ مشق بنانے کے لیے مشرکین پر جو بدمستی چھائی تھی اس کی جگہ سوجھ بوجھ نے لینی شروع کی۔ چنانچہ مشرکین نے یہ کو شش کی کہ اس دعوت سے نبیﷺ کا جو منشا اور مقصود ہوسکتاہے اسے فراواں مقدار میں فراہم کرنے کی پیشکش کر کے آپ کو آپ کی دعوت وتبلیغ سے باز رکھنے کے لیے سودے بازی کی جائے ۔
ابن اسحاق نے یزید بن زیاد کے واسطے سے محمد بن کعب قرظی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ مجھے بتایا گیا کہ عُتبہ بن ربیعہ نے جو سر دارِ قوم تھا۔ ایک روز قریش کی محفل میں کہا... اور اس وقت رسول اللہﷺ مسجدِ حرام میں ایک جگہ تن تنہا تشریف فرما تھے... کہ قریش کے لوگو ! کیوں نہ میں محمد کے پاس جاکر ان سے گفتگو کروں ، اور ان کے سامنے چند امور پیش کروں ، ہوسکتا ہے وہ کوئی چیز قبول کر لے۔ توجو کچھ وہ قبول کر لیں گے ، اسے دے کر ہم انہیں اپنے آپ سے باز رکھیں گے؟.
مشرکین نے کہا : ابوالولید ! آپ جایئے اور ان سے بات کیجیے ! اس کے بعد عتبہ اٹھا اور رسول اللہﷺ کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔ پھر بولا :
بھتیجے ! ہماری قوم میں تمہارا جو مرتبہ ٔ ومقام ہے اور جو بلند پایہ نسب ہے، وہ تمہیں معلوم ہی ہے اور اب تم اپنی قوم میں ایک بڑا معاملہ لے کر آئے ہو جس کی وجہ سے تم نے ان کی جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار قرار دیا۔ ان کے معبودوں اور ان کے دین پر عیب چینی کی اور ان کے جو آباء و اجداد گزر چکے ہیں انہیں کا فر ٹھہرایا۔ لہٰذا میری بات سنو ! میں تم پر چند باتیں پیش کر رہا ہوں ، ان پر غور کرو۔
ہوسکتا ہے کوئی با ت قبول کر لو۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : ابو الولید کہو! میں سنو ں گا۔ ابو الولید نے کہا :
بھتیجے ! یہ معاملہ جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس سے تم یہ چاہتے ہو کہ مال حاصل کرو تو ہم تمہارے لیے اتنا مال جمع کیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے مالدار ہوجاؤ اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اعزاز و مرتبہ حاصل کرو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنائے لیتے ہیں، یہاں تک کہ تمہارے بغیر کسی معاملہ کا فیصلہ نہ کریں گے اور اگر تم چاہتے ہو کہ بادشاہ بن جاؤ تو ہم تمہیں اپنا باد شاہ بنائے لیتے ہیں اور اگر یہ جو تمہارے پاس آتا ہے کوئی جن بھوت ہے جسے تم دیکھتے ہو لیکن اپنے آپ سے دفع نہیںکر سکتے تو ہم تمہارے لیے اس کا علاج تلاش کیے دیتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم اپنا مال خرچ کر نے کو تیار ہیں کہ تم شفایاب ہو جاؤ۔ کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ جن بھوت انسان پر غالب آجاتا ہے اور اس کا علاج کروانا پڑتا ہے۔
عتبہ یہ باتیں کہتا رہا اور رسول اللہﷺ سنتے رہے۔ جب فارغ ہوچکا تو آپ نے فرمایا : ابوالولید! تم فارغ ہوگئے؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب میری سنو۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ سنوں گا۔ آپ نے فرمایا :
حم ﴿١﴾ تَنزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٢﴾ كِتَابٌ فُصِّلَتْ آيَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٣﴾ بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٤﴾ وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ ﴿٥﴾ (۴۱: ۱ تا ۵)
'' حم۔ یہ رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کی ہوئی ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دی گئی ہیں۔ عربی قرآن ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ بشارت دینے والا۔ ڈرانے والا لیکن اکثر لو گوں نے اعراض کیا اور وہ سنتے نہیں۔ کہتے ہیں کہ جس چیزکی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس کے لیے ہمارے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے... الخ ''
عتبہ چپ چاپ سنتا رہا۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر پہنچے فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ﴿١٣﴾ (۴۱: ۱۳) (پس اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ میں تمہیں عادوثمود کی کڑک جیسی ایک کڑک کے خطرے سے آگا ہ کر رہا ہوں )تو عتبہ تھرا کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتے ہوئے اپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کے منہ پر رکھ دیا کہ میں آپ کو اللہ کااور قرابت کا واسطہ دیتا ہوں (کہ ایسا نہ کریں) اسے خطر ہ تھا کہ کہیں یہ ڈراوا آن نہ پڑے۔ اس کے بعد وہ قوم کے پاس گیا اور مذکورہ گفتگو ہو ئی۔ (تفسیر ابن کثیر ۶/۱۵۹، ۱۶۰، ۱۶۱)
عتبہ اٹھا اور سیدھا اپنے ساتھیوں کے پاس آیا۔ اسے آتا دیکھ کر مشرکین نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا : اللہ کی قسم ! ابو الولید تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں آرہا ہے جو چہرہ لے کر گیا تھا۔ پھر جب وہ آکر بیٹھ گیا تو لوگوں نے پوچھا : ابوالولید ! پیچھے کی کیا خبر ہے ؟
اس نے کہا: پیچھے کی خبر یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس جیسا کلام واللہ! میں نے کبھی نہیں سنا۔ اللہ کی قسم ! وہ نہ شعر ہے نہ جادو ، نہ کہانت ، قریش کے لوگو! میری بات مانو اور اس معاملے کو مجھ پر چھوڑ دو۔ (میری رائے یہ ہے کہ ) اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کر الگ تھلگ بیٹھ رہو۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کا جو قول سنا ہے اس سے کوئی زبردست واقعہ رونما ہو کر رہے گا۔ پھر اگر اس شخص کو عرب نے مار ڈالا تو تمہارا کام دوسروں کے ذریعے انجام پاجائے گا اور اگر یہ شخص عرب پر غالب آگیا تو اس کی بادشاہت تمہاری بادشاہت اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور اس کا وجود سب سے بڑھ کر تمہارے لیے سعادت کا باعث ہوگا۔ لوگوں نے کہا: ابوالولید ! اللہ کی قسم! تم پر بھی اس کی زبان کا جادو چل گیا۔ عتبہ نے کہا : اس شخص کے بارے میں میری رائے یہی ہے اب تمہیں جو ٹھیک معلوم ہو کرو۔
(ابن ہشام ۱/۲۹۳،۲۹۴۔ اس کا ایک جزء المعجم الصغیر للطبرانی میں بھی ہے(۱/۲۶۵))

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔