Sunday 25 January 2015

نبوت اور رسالت کی چھاوَں میں۔۔


آپﷺ کی عمر جب چالیس برس ہوگئی ... اور یہی سن کمال ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے ... تو آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے، چنانچہ مکہ میں ایک پتھر آپ کو سلام کرتا تھا۔ نیز آپ کو سچے خواب نظر آتے تھے۔ آپﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا۔ اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا... جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ روئے زمین کے باشندے پر اس کی رحمت کا فیضان ہو۔ چنانچہ اس نے آپﷺ کو نبوت سے مشرف کیا اور حضرت جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپﷺ کے پاس تشریف لائے۔
حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ بیہقی نے یہ حکایت کی ہے کہ خواب کی مدت چھ ماہ تھی۔ لہٰذا خواب کے ذریعے نبوت کا آغاز چالیس سال کی عمر مکمل ہونے پر ماہ ربیع الاوّل میں ہوا جو آپ کی ولادت کا مہینہ ہے لیکن حالت بیداری میں آپ کے پاس وحی رمضان شریف میں آئی۔ (فتح الباری ۱/۲۷ )
آغاز وحی کا مہینہ ، دن اور تاریخ مورخین میں بڑا اختلاف ہے کہ نبیﷺ کس مہینے میں شرفِ نبوت اور اعزازِ وحی سے سر فروزہوئے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۱/تاریخ کو دوشنبہ کی رات میں پیش آیا۔ اس روز اگست کی ۱۰/تاریخ تھی اور ۶۱۰ ء تھا۔ قمری حساب سے نبیﷺ کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن اور شمسی حساب سے ۳۹ سال تین مہینے ۲۲ دن تھی۔ 
بیشتر سیرت نگار کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا لیکن ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ رجب کا مہینہ تھا۔ (دیکھئے : مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص :۷۵) دوسرا قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ (۲/۱۸۵) ''رمضان کا مہینہ ہی وہ (بابرکت مہینہ ہے ) جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ۔ اورہم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں :إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ‌ (۹۷/۱) یعنی ''ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ '' معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہےاور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور انھی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے ۔
آیئے ! اب ذرا حضرت عائشہ ؓ کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں جو نبوت کا نقطۂ آغاز تھا اور جس سے کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ کے فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو۔ آپ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس پراس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ پکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ! میں نے پھر کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا، پھر چھوڑ کر کہا:
اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ الْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾
''پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا ، پڑھو اور تمہارا رب نہایت کریم ہے۔''
ان آیات کے ساتھ رسول اللہﷺ پلٹے۔ آپﷺ کا دل دَھک دَھک کر رہا تھا۔ حضرت خَدِیجہ ؓبنت خویلد کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ انہوں نے آپﷺ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔اس کے بعد آپﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کو واقعے کی اطلاع دی اور فرمایا یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟مجھے تو اپنی جان کاڈر لگتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا قطعاً نہیں۔ واللہ ! آپﷺ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا۔ آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تہی دستوں کا بند وبست کرتے ہیں۔ مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچیرے بھائی وَرَقَہ بن نَوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں۔ ورقہ دورِ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی میں لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حَسبِ توفیق الٰہی انجیل لکھتے تھے۔ اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے، ان سے حضرت خدیجہؓ نے کہا : بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے کہا : بھتیجے ! تم کیا دیکھتے ہو ؟
رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرمادیا، اس پر ورقہ نے آپ سے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش! میں اس وقت توانا ہوتا۔ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا ! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ 
ورقہ نے کہا : ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو تمہاری زبردست مدد کروںگا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔ (صحیح بخاری باب کیف کا بدء الوحی ۱/۲،۳)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔